یہ ابلیس کا چیلا، اپنی ایک بدبو-دار کتاب میں چھ برس کی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شادی والی جعلی حدیث کو سپورٹ کرنے کے اپنے دادا، پارسی ابن-ماجہ کی طرح قران پر حملہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ لوگ چھ سال کی بچی سے شادی پر تو اعتراض کرتے ہیں مگر قران پر اعتراض نہیں کرتے جس میں خضر نے سورہ الکھف میں ایک چھوٹے پچے کو مار دیا۔ اسی سنی-مشرک کے دادا، پارسی ابن-ماجہ نے ۱۹۴۴ میں لکھا ہے کہ قران کی رجم کی ایات کوئی خبیث سنی-بکری کھا گئی تھی۔ حالانکہ الله جَلَّ جَلَالَهُ ایات ۱۵:۹، ۱۷:۸۸، ۴۱:۴۲ میں فرماتا ہے کہ وہ خود قران کا محافظ ہے اور اس کے قران کو کوئی برائی بھی کسی طرف سے نہیں چھو سکتی۔ مگر اس جعلی ڈاکٹر کا پارسی دادا ابن-ماجہ لوگوں کو بتا رہا ہے کہ وہ خبیث سنی-بکری اس ذات سے بھی زیادہ طاقتور تھی جس نے قران کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے۔ پھر ان سنی-مشرکین نے اپنی اس خبیث سنی-بکری کا دفاع کرنے کے لیے قران کے خلاف ایک جھوٹ گھڑا جسے یہ ناسخ-منسوخ کہتے ہیں۔ اجکل کے بڑے بڑے اسلامی قانون کے پروفیسر بھی کہتے ہیں کہ قران اپنی ہی ایات کو منسوخ نہیں کرتا بلکہ پرانی کتابوں کی فرسودہ شریعت کو منسوخ کرتا ہے۔ اپ سارے حوالاجات ہمارے ناسخ-منسوخ یعنی ایبروگیشن کے صفحہ پر پڑھ سکتے ہیں۔ پھر یہ مشرک یہ کہتے ہیں کہ وحی، دو قسم کی ہے۔ حالانکہ قران بار بار کہتا ہے کہ صرف قران ہی الله جَلَّ جَلَالَهُ کی وحی ہے جو رسول پر نازل ہوا ۲۸:۸۵، ۲۵:۳۰، ٦:۱۹، ٦:۱۱۴، ۱۰:۱۵۔ اگر ایک اور قسم کی وحی بھی ہوتی تو چار خلفاء نے ایسی دوسری قسم کی وحی کی کتب کیوں نہیں لکھوائیں؟ اس جعلی ڈاکٹر کا دماغ اتنا چھوٹا ہے کہ جب ہم نے اس کے مشرکانہ ویڈیوز کے نیچے مدلل جواب لکھا تو اس نے ہمیں بلاک کر دیا۔

سورہ الکھف میں نبی موسی اور خضر کے واقعہ میں قران، ہم انسانوں کو ایک نہایت ہی دقیق نقطہ سمجھا رہا ہے اور وہ نقطہ یہ ہے کہ انسانی عقل محدود ہے جو ہر چیز کو نہیں سمجھ سکتی۔ قران سورہ الکھف میں اس پچے کی، کشتی کی اور دیوار کی مثال دے کر یہ سمجھا رہا ہے کہ کئی واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ انسانی دماغ کو بہت ہی برے لگتے ہیں مگر حقیقت میں، ان واقعات کے پیچھے، بھلائی مضمر ہوتی ہے جسے صرف وہی جانتا ہے جو اس کائنات کا نظام چلا رہا ہے۔ اب یہ کیا تک بنتا ہے کہ یہ جعلی احمق جاہل ڈاکٹر، چھ سال کی بچی کی شادی کا سورہ الکھف کے نبی موسی اور خضر کے واقعہ سے مقارنہ کرے؟ قران نے اس شخصیت کا نام نہیں بتایا جس نے نبی موسی کے ساتھ سفر کیا۔ یہ سنی ملاں ہیں جنہوں نے اس کو خضر کا نام دے رکھا ہے۔ سنی ملاں یہ بھی کہتے ہیں کہ ۴۰۰۰ سال بعد بھی وہ ان کا خضر، ابھی بھی زندہ ہے اور دریاؤں کے پانیوں میں رہتا ہے۔

چھ سال کی عمر میں حضرت عائشہ کی شادی والی جعلی حدیث کے سب کے سب ۱۳ نریٹر، کوفہ اور بصرہ کے شیعہ تھے۔ بخاری کا ایک بڑا استاد فضل بن دکین ایک کٹر شیعہ تھا۔ جن لوگوں نے اسلامی تاريخ پڑھی ہے وہ جانتے ہیں کہ شیعہ کیسے ابوبکر اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے خلاف گالیاں بکتے ہیں۔ ان دونوں کا مذاق اڑانے کے لیے شیعہ نے چھ سال کی عمر والی رویت گھڑی۔ ہم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی کی عمر کے بارے میں اپنے اس صفحہ میں گہرائی میں بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ یہ شیعہ کی کارستانی ہے۔

سفر کے اس اخر میں، الله جَلَّ جَلَالَهُ کے اس بندے نے جس کو سنی-ملاؤں نے خضر کا نام دے رکھا ہے، نبی موسی کو بتایا کہ جو کچھ اس نے سفر کے دوران کیا اس میں کیا بھلائی مضمر تھی۔ اب ہم اس دجال-الدجاجلہ جعلی ڈاکٹر زبیر سے پوچھتے ہیں کہ ۵۳ سالہ مرد کی چھ سال کی بچی سے شادی کرنے میں کونسی بھلائی اور دانشمندی مضمر ہے۔ کیا یہ جعلی ڈاکٹر اپنی نو سالہ بچی کو کسی ۵۳ سالہ شخص کے ساتھ ہمبستری کرنے کی اجازت دے گا؟

پھر اس ابلیس کے چیلے نے ایت ٦۵:۴ کے الفاظ لَمْ يَحِضْنَ کو مروڑ کر چھ سالہ بچی کے ساتھ شادی کو جائز کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ اسی ایت کے شروع کے الفاظ مِن نِّسَآئِكُمْ بتا رہے ہیں کہ اس ایت میں بات عورتوں کی ہو رہی ہے چھ سال کی بچی کی نہیں۔ قران، تین گروپوں کی بات کرتا ہے ۴:۷۵ مرد، عورت اور بچے ٱلرِّجَالِ وَٱلنِّسَآءِ وَٱلْوِلْدَٰنِ۔ ابھی ایک بچی اور ایک عورت میں کیا فرق ہے؟ فرق ماہانہ ماہواری ہے۔ کیا چھ سال کی بچی کو ماہواری اتی ہے؟ حالیہ سٹڈی جو سعودی عرب ميں کی گئی ہے اس کےمطابق ۹ سال کو تو ماہواری اتی نہیں۔ جتنا ہم عربوں کو جانتے ہیں یہ جعلی ڈاکٹر نہیں جانتا۔ عرب کبھی بھی چھ یا نو سالہ بچی کی شادی نہیں کرتے۔ ایت ٦۵:۴ میں جو الفاظ لَمْ يَحِضْنَ استعمال ہوۓ ہیں وہ ان عورتوں نِّسَآئِكُمْ کے لیے ہیں جنہیں کسی بیماری، جسمانی پرابلم یا فزیکل نقص کی وجہ سے ماہواری نہیں آ رہی۔اپنی کتاب کے باب “حجیت حدیث اور انکار حدیث” کے اغاز میں یہ مشرک ڈاکٹر مولوی زبیر لکھتا ہے کہ دین کے دو بنیادی مصادر ہیں قران اور سنت۔ یہی کفر ۱۲۰۰ سال سے سنی امام بک رہے ہیں اور اسی شرک اور کفر کا پرچار سوڈو سکالر غامدی بھی کرتا رہتا ہے۔ مشرک شیعہ کہتے ہیں کہ دین کے مصادر قران اور اہل بیت ہیں۔ مشرک ڈاکٹر مولوی زبیر ، مشرک غامدی اور تمام مشرک سنی اور شیعہ ملاؤں کے اس دعوی کی نہ کوئی منطق ہے نہ کوئی دلیل۔ قران کی ایت ٦:۱۱۴ کہ مندرجہ ذیل الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ دین کا مصدر صرف اور صرف قران ہے أَفَغَيْرَ ٱللَّهِ أَبْتَغِى حَكَمًا وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ إِلَيْكُمُ ٱلْكِتَـٰبَ مُفَصَّلًا۔ یہ ایت یہ نہیں کہہ رہی کہ دین کا بنیادی مصدر قران ہے بلکہ یہ ایت صاف کہہ رہی ہے کہ دین کا مصدر ماخذ صرف اور صرف قران ہے۔ مندرجہ ذیل ایات یہ نقطہ مزید واضع کرتی ہیں۔

5:44-48, 12:106, 42:10, 42:10, 6:114, 6:19, 10:15, 39:13, 50:45, 16:116, 10:59-60, 7:32, 7:2-3, 11:18, 66:1, 28:56, 72:21, 2:272, 3:80, 18:110, 29:18, 5:92, 5:99, 42:48, 3:20, 2:213, 16:64, 24:54, 36:17, 13:40, 16:35, 16:82, 64:12, 12:111, 16:89, 17:12, 25:30, 25:33, 29:51, 45:6, 46:9, 28:85, 42:15, 2:159, 7:157, 47:2

قران کی ایت ۵:۴۴ کے مطابق جو لوگ دین کا مصدر، الله جَلَّ جَلَالَهُ کی کتاب کے علاوہ کسی اور کتاب کو بناتے ہیں وہ کافر ہیں وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْكَـٰفِرُونَ۔ لہذا ایات ٦:۱۱۴ اور ۵:۴۴ کے مطابق ہر وہ بندہ کافر مشرک ہے جو قران کے ساتھ سنت اور احادیث کی من-گھڑت کتب کو شریک ٹھہراتا ہے اور قران کے ساتھ ملاؤں کی بنائی ہوئی کسی اور کتاب کو شریک کرنا، الله جَلَّ جَلَالَهُ کے ساتھ شرک کرنا ہے۔ اسی لیے ہم بار بار لکھتے ہیں کہ سنی اور شیعہ، مشرکوں کے دو گروہ ہیں۔

قران میں لکھا ہے کہ جو انسان ایک ایت کا بھی انکار کرتا ہے یا کسی ایت کے کسی حصے کا بھی انکار کرتا ہے تو وہ کافر ہے۔ سنی اور شیعہ ان ایات کا عملی طور پر انکار کرتے ہیں جو ایات فرقہ-پرستی سے منع کرتی ہیں۔ سنی، ایات ۱۵:۹، ۱۷:۸۸، ۴۱:۴۲ کا بھی عملی طور پر انکار کرتے ہیں کیونکہ ان کی بکری قران کی ایات کھا گئی ہے۔ سنی اور شیعہ ایت ۱٦:۸۹ کا بھی انکار کرتے ہیں۔ ان مشرکوں نے قران کے خلاف ناسخ-منسوخ کی خرافات بھی گھڑ رکھی ہے۔ ان مشرکین کا ایک امام لکھتا ہے کہ قران کی ۲۴۷ ایات منسوخ ہیں اور ایک اور امام لکھتا ہے کہ قران کی ۲۲ ایات منسوخ ہیں اور ایک اور مشرک امام لکھتا ہے کہ قران کی ۵ ایات منسوخ ہیں۔ یہ ابلیس کے مرید،۱۲۰۰ سال سے کیسے اللہ تعالی کی کتاب کا مذاق اڑا رہے ہیں وَمَا نُرْسِلُ ٱلْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَيُجَـٰدِلُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ بِٱلْبَـٰطِلِ لِيُدْحِضُوا۟ بِهِ ٱلْحَقَّ وَٱتَّخَذُوٓا۟ ءَايَـٰتِى وَمَآ أُنذِرُوا۟ هُزُوًا ۱۸:۵٦۔ ان پر خدا کی ایک کھرب لعنت ہو۔ موجودہ دور کے اسلام کے بڑے پروفیسر اس چیز پر متفق ہیں کہ قران کبھی بھی اپنی ہی ایات منسوخ نہیں کرتا بلکہ قران، پرانی کتابوں کی شریعت کو منسوخ کرتا ہے کیونکہ قران، اخری کتاب ہے اور مھیمن بھی ہے ۵:۴۸

پھر یہ سنی اور شیعہ ملاں نہایت ہی بددیانت ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ نبی کریم، خلفاء اور صحابہ نے پیچھے صرف لکھا ہوا قران چھوڑا۔ کوئی حدیث، سنت، تفسیر کی تحریر نہیں چھوڑی۔ اس لیے الله جَلَّ جَلَالَهُ اور رسول کی اطاعت کا مطلب صرف قران کو فالو کرنا ہے۔ پھر بھی “فار-دا-سیک-آف-آرگومنٹ” یہ سنی اور شیعہ مولوی اپنی بنائی ہوئی کتب احادیث کے متعلق بھی بدیانتی کرتے ہیں۔ غامدی اور اس ڈاکٹر زبیر جیسے جعلی سکالر لوگوں کو یہ تو بتاتے رہتے ہیں کہ سنی-کتاب صحیح-مسلم میں لکھا ہے کہ حج الوداع کے خطبہ میں نبی نے کہا کہ میرے بعد قران اور میری سنت فالو کرنا مگر یہ بددیانت ملاں لوگوں کو یہ نہیں بتاتے کہ اسی کتاب صحیح-مسلم میں پانچ روایات میں لکھا ہے کہ حج الوداع کے خطبہ میں نبی نے کہا کہ میرے بعد قران فالو کرنا۔ ان پانچ روایات میں قران کے ساتھ نہ سنت کا ذکر ہے نہ اہل-بیت کا۔ اس کے علاوہ ہم ۱۰۰ سے زیادہ سنی-فرقہ کی قدیم کتب میں بھی یہی پڑھتے ہیں کہ حج الوداع کے خطبہ میں نبی نے کہا کہ میرے بعد قران فالو کرو۔ ان ۱۰۰ سے زیادہ کتب میں اس روایت میں قران کے ساتھ نہ سنت کے الفاظ ہیں نہ اہل-بیت کے۔ اپ ان سب ۱۰۰ سے زیادہ کتب کے نام اور روایت کا صفحہ نمبر ان دو لنک میں خود پڑھ سکتے ہیں۔ پہلا لنک یہ ہے، اور دوسرا لنک یہ ہے۔ تاریخی طور پر، ابن-اسحاق کی کتاب سیرہ سب سے پرانی کتاب ہے، اس میں لکھا ہے وفات سے چند دن پہلے، نبی کریم نے لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ میں نے ہمیشہ اس چیز کو ہی ہلال قرار دیا جو قران میں ہلال ہے اور ہمیشہ اسی چیز کو حرام قرار دیا جو قران میں حرام ہے۔ یعنی نبی نے بتایا کہ انہوں نے صرف قران کو ہی فالو کیا، اپنی مرضی نہیں کی۔ یہ روایت بہت سی اور کتب میں بھی ملتی ہے.

وہ روایات جن میں قران کے ساتھ سنت کے شریک الفاظ ملتے ہیں سنی فرقہ نے فورج کی ہیں اور وہ روایات جن میں قران کے ساتھ اہل-بیت کے شریک الفاظ ملتے ہیں وہ شیعہ فرقہ نے فورج کیں ہیں کیونکہ ایسی روایات قران کی ایات ٦:۱۱۴، ۵:۴۴ کے الٹ چلتی ہیں، اور نبی، کبھی بھی ایسی بات نہیں کرسکتے تھے جو قران کے الٹ ہو ٦:۱۱۴۔ وہ روایات جن میں صرف قران کا ذکر ہے ایسی روایات ایات ٦:۱۱۴، ۵:۴۴ کے ساتھ چلتی ہیں۔

اس کے علاوہ، پورے قران-مجید میں “سنت-رسول” کے الفاظ نہیں ہیں نہ ہی کوئی قرانی ایت یہ حکم دیتی ہے کہ رسول کی سنت کو فالو کرو۔ قران صرف دو قسم کی سنت کی بات کرتا ہے، الله جَلَّ جَلَالَهُ کی سنت؛ اور ماضی کے مجرم لوگوں کی سنت۔ یہ “سنت-رسول” کی ٹرم سنی اور شیعہ کی پیداوار ہے۔ قران، نبی محمد اور نبی ابراہیم کی اسوۃ-حسنہ کی بات کرتا ہے ہے مگر ان دونوں نبیوں کی صحیح اسوۃ-حسنہ صرف قران کے اندر ہے۔ اسی لیے صحابہ نے اسوۃ-حسنہ کا کوئی لکھا ہوا نسخہ پیچھے نہیں چھوڑا۔ اور حضرت عائشہ نے بھی کہا کہ قران، رسول کا اخلاق ہے۔ القرآن فإن خلق رسول الله۔ اپ، سنت پر یہ صفحہ ضرور پڑھیں۔

پھر اپنی اور غامدی کی منترا “سنت-رسول” کو سپورٹ کرتے ہوئے یہ مشرک مولوی زبیر اپنی کتاب مکالمہ میں لکھتا ہے کہ “سنت-رسول” کا ماخذ، الحاد روایات ہے۔ یہ بات لکھ کر اس سنی مشرک نے اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مار کر “سنت-رسول” کو جعلی سنت قرار دیا ہے کیونکہ حتی کہ سنی فرقہ کے اکثر امام اور فقہی، اخبار-الحاد کو صحیح نہیں مانتے۔ خبر-الحاد کا معنی یہ ہے کہ کوئی روایت جو صرف ایک ہی بندے نے بار بار بیان کی ہو، گھڑی ہو، اور اس بندے کی روایت کی شہادت کسی اور بندے نے نہ دی ہو۔ اس لنک پر اپ ان سنی آئمہ کے نام پڑھ سکتے ہیں جو الحاد روایات کو نہیں مانتے

ایک اور راشنل نقطہ یہ ہے کہ اگر سنت اور حدیث، دین کا حصہ ہوتیں تو چار خلفاء ضرور سنت اور حدیث کی کتب لکھواتے۔ مگر انہوں نے ایسی کوئی کتاب نہیں لکھوائی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سنت اور حدیث کی کتب محض شیعہ اور سنی مشرکین کی خرافات ہیں۔ حتی کہ سنی فرقہ کی قدیم بیسیوں کتب میں لکھا ہے کہ نبی اور چار خلفاء کے دور میں سنت، حدیث اور تفسیر پر پابندی تھی۔ خلیفہ عمر کے دور میں سنت اور حدیث اور تفسیر کے قصے لوگوں میں پھیلانا قابل سزا جرم تھا۔ ثبوت کے لیے اپ ایسے سارے حوالاجات اس صفحہ پر پڑھ سکتے ہیں بلکہ ضرور پڑھیں کیونکہ یہ صفحہ بہت اہم ہے۔ اللہ تعالی اور رسول کی اطاعت کا مطلب صرف اس کتاب کو فالو کرنا ہے جو اللہ تعالی نے لوگوں تک رسول کے ذریعے بھیجی اور اس کتاب کا نام صرف قران ہے ٦:۱۹

پھر یہ جعلی ڈاکٹر اپنی کتاب مکالمہ میں ایک ملحد غلام-رسول کا ذکر کرتا ہے کہ اس ملحد نے ابن-ماجہ کی ایک رویت کا غلط ترجمہ کیا تھا۔ لیکن وہ تو ایک ملحد تھا مگر تم شیعہ اور سنی مشرکین دعوی کرتے ہو کہ تم مسلمان ہو (حالانکہ نہیں ہو ۵:۴۴، ۳:۱۰۳، ۳:۱۰۵) تو پھر تم کیوں اپنے منافق حدیث اماموں کو بچانے کے لیے اپنی ہی بہت سی احادیث کا ترجمہ غلط کرتے ہو۔ تم تو بہت سی قرانی ایات کے ترجمہ میں بھی ڈنڈی مارتے ہو۔ غلام-رسول تو ایک ملحد تھا مگر تم مشرکین جو مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہو اس ملحد غلام-رسول سے لاکھ گنا بڑے ملحد ہو۔ قران، بیوی سے روزہ کے دوران اور ماہواری کے دوران مباشرت سے منع کرتا ہے مگر تمہاری من گھڑت احادیث کہتی ہیں کہ نبی، روزہ کے دوران اور ماہواری کے دوران بھی بیوی سے مباشرت کرتے تھے۔ قران سب سے پرانی عربی کی ڈکشنری بھی ہے اور قران میں مباشرت کے معنی جماع ہے ۲:۱۸۷ مگر تم سنی، اپنی احادیث میں، مباشرت کا ترجمہ فانڈلنک کر دیتے ہو۔ پھر باطنی تحریک کے منافق پارسی بخاری کی ایک رویت میں لکھا ہے کہ نبی کو اس وقت تک وحی اتی ہی نہیں تھی جب تک وہ حضرت عائشہ کا ثوب نہیں پہن لیتے تھے۔ عربوں کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ثوب عربی عورت کی اس لمبی قمیص کو کہتے ہیں جو گردن سے لے کر پاؤں تک لمبی ہوتی ہیں مگر سنی مترجم ثوب کا ترجمہ یا کمبل کر دیتے ہیں یا کمرہ کر دیتے ہیں۔ میں ایسی بہت سی مثالیں دے سکتا ہوں۔ یہ شیعہ اور سنی مشرکین، قران کی بہت سی ایات کے ترجمہ کی بھی تحریف کرتے ہیں جن میں یہ ایات بھی شامل ہیں، ۳:۱۴۴، ۳:۵۵، ۵:۱۱۷، ۴۳:٦۱، ۳۲:۱۱، ۳۳:۲۱، ۵۹:۷، ۵۳:۳، ۵۳:۴، ٦۵:۴، ۴:۱۵۷، ۴:۱۵۸، ۴:۱۵۹، ۲:۱۱۵، ۲:۱۷۷، ۲:۱۴۲

پھر یہ جعلی ڈاکٹر لکھتا ہے کہ مسلم اور کافر میں کیا فرق ہے۔ اس سوال کے جواب میں یہ ایت ۵:۴۴ کا کا ذکر کرنے کی بجائے اپنی من-گھڑت کتب احادیث کے حوالے دیتا ہے۔ قران کی متعدد ایات میں وآضع ہے کہ ججمنٹ یعنی شریعت کا قانوں صرف اور صرف اللہ عزّ وجلّ کی کتاب سے ہی بنایا جا سکتا ہے۔ اور مفتی-اعظم جو کہ قران ہے، ایت نمبر ۵:۴۴ میں فتوی دیتا ہے کہ وہ لوگ کافر ہیں جو اللہ عزّ وجلّ کی کتاب کے علاوہ درسری ملاں-ملوانوں کی کتب سے شریعت کا قانون بناتے ہیں؛ اور ایات ٦:۱۱۴ اور ایت ۵:۴۴ کے مطابق سنی اور شیعہ ۱۰۰ فیصد مشرک کافر ہیں کیونکہ ایات ٦:۱۱۴، ۵:۴۴ کا انکار کرتے ہوئے، ۱۲۰۰ سال سے، سنی اور شیعہ فرقے ان من-گھڑت کتب احادیث سے شریعت کے قانون بنا رہے ہیں جن کے صحیح ہونے کی تصدیق، ذاتی طور پر نہ رسول نے کی نہ ہی ذاتی طور پر چار خلفاء اور کسی صحابی نےکی۔

پھر یہ سوڈو ڈاکٹر، صحیح اور ضعیف روایات کے بارے میں بات کرتا ہے اور کہتا کہ پانچ پارسی نمازیں دین کا ستون ہیں اور مومن کی معراج ہیں؛ وہی معراج جس میں سنی فرقے کا اڑنے والا گھوڑا براق اپنے اوپر پانچ پارسی نمازین لاد کر لایا تھا۔ سچ یہ ہے کہ براق والی روایت سو فیصد من-گھڑت ہے اور اس کا پورا ثبوت اپ اس صفحہ پر پڑھ سکتے ہیں۔ اور پانچ پارسی نمازوں کا، قران کی صلاۃ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس صفحہ پر پڑھیں کہ قرانی صلاۃ کیا ہے

مسٹر نمبر-۲ جعلی ڈاکٹر: عقلی دلیل یہ ہے کہ کوئی بھی ایسی حدیث جس کی توثیق رسول نے ذاتی طور پر نہیں کی، یا کم از کم “ذاتی طور پر” چار خلفاء نے اس کی توثیق نہیں کی، ایسی روائت کو صحیح حدیث نہیں کہا جا سکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا “ذاتی طور پر” چاروں خلفاء نے کسی حدیث کو صحیح کہا؟ صحیح جواب ہے: نہیں، بالکل نہیں۔ لہذا؛ تمام احادیث غیر مستند “ضعیف” ہیں اور عقیدہ، شریعت اور پانچ نمازوں کو غیر مستند کہانیوں پر استوار نہیں کیا جا سکتا۔

نبی کی وفات کے ۲۵۰ سال بعد، باطنی تحریک کے منافق، پارسی بخاری کو کیا رسول نے کہا کہ تم حدیثوں کی کتاب لکھو؟ کیا بخاری کو الله جَلَّ جَلَالَهُ نے وحی کر کے حکم دیا تھا کہ تم حدیثوں کی کتاب لکھو؟ نہیں۔ پھر کس نے پارسی بخاری کو اتھاریٹی دی کہ تم یہ اپنی کتاب لکھو؟ کیا اپ کو معلوم ہے کہ کس نے، پارسی منافق بخاری کو کتاب لکھنے کی اتھارٹی دی؟ مولوی صاحب: اپ کو نہیں معلوم مگر ہمیں معلوم ہے۔۔ جس نے اتھاریٹی دی اس کا نام ابلیس ہے ۳۸:۸۲، ۲۸:۸۳۔ ان جعلی احادیث نے مسلم امت کا بیڑا غرق کر دیا اور امت کو فرقوں میں تقسیم کر دیا اور امت کمزور ہوتی چلی گئی۔ بخاری کی کتاب، قران پر بار بار حملہ کرتی ہے اور رسول کی بار بار توہین کرتی ہے۔ کیا ایک نیک پارسا مسلمان ایسی کتاب لکھ سکتا ہے جو رسول اور قران کی بار بار توہین کرے؟ نہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے بخاری، دراصل باطنی تحریک کا ایک پارسی منافق تھا

حتی کہ سنی فرقہ کی اپنی بیسیوں کتب میں لکھا ہے کہ رسول نے کہا، میری احادیث مت لکھو کیونکہ میں بھی تمہاری طرح کا ہی فانی انسان ہوں ۱۸:۱۱۰ اور غلطی کر سکتا ہوں اور گناہ کر سکتا ہوں ۴۸:۲۔ ابوبکر نے رسول کی وفات کے بعد لوگوں کو کہا احادیث مت پھیلاؤ اور تمام معاملات قران کے مطابق حل کرو۔ عمر بن خطاب نے تو احادیث پھیلانے والوں کے خلاف جہاد کیا۔ انہوں نے لوگوں سے ساری لکھی ہوئی احادیث کو جمع کر کے آگ میں جلا دیا اور کہا کہ یہ احادیت یہودیوں کی کتاب تالمود کی طرح ہیں۔ مگر پھر بھی تین صحابی لوگوں میں احادیث پھیلا رہے تھے۔ عمر بن خطاب نے نے ان تین صحابیوں کو تاحیات قید کر دیا۔ عمر بن خطاب نے سب گورنرز کو خط لکھا کہ ساری احادیث تلف کر دو۔ عمر بن خطاب نے سنت کو بھی لکھنے سے انکار کر دیا اور کہا: لا کتاب معہ کتاب-اللہ۔ – عمر بن خطاب نے کہا: ہمارے لیے قران ہی کافی ہے۔ خلیفہ چہارم، علی نے بھی ایک خطبے میں مسلمانوں کو کہا کہ سب احادیث تلف کردو کیونکہ تم سے پہلی اقوام اس لیۓ گمراہ ہو گئیں کیونکہ انہوں نے اپنے ملاؤں کی لکھی کتب-احادیث کو فالو کرنا شروع کر دیا اور الله جَلَّ جَلَالَهُ کی کتاب کو بھول گئے۔ ان کا اشارہ تالمود کی طرف تھا جو یہودی ریبائیوں نے فورج کی۔

قران ٦:۱۱۴، ۵:۴۴ کے مطابق جو لوگ الله جَلَّ جَلَالَهُ کی کتاب کے علاوہ دوسری انسان کی بنائی ہوئی کتب سے شریعت کے قوانین بناتے ہیں وہ کافر ہیں: وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْكَـٰفِرُونَ۔ اور سچ یہ ہے کہ سنی اور شیعہ فرقے ۳:۱۰۳، بارہ-سو ۱۲۰۰ سال سے قرانی ایات ٦:۱۱۴، ۵:۴۴ کا انکار کرکے کفر کے مرتکب ہو رہے ہیں یعنی ٦:۱۱۴، ۵:۴۴ کے مطابق وہ کافر ہیں: وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْكَـٰفِرُونَ

پھر یہ جعلی ڈاکٹر اس سوال پر بات کرتا ہے کہ خاتم الأنبياء بشر تھے یا نور تھے۔ پہلے یہ خود لکھتا ہے کہ قران کے مطابق سب انبیاء بشر تھے مگر اس کی بعد خیانت کرتے ہوئے، سنی مشرکین کی سپورٹ میں یہ جعلی ڈاکٹر قران کی ایت ۵:۱۵ سامنے لا کر ثابت کرنے میں جٹ جاتا ہے کہ خاتم الأنبياء نور بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ بات صاف ہے کہ ایت ۵:۱۵، بشر محمد کا نہیں بلکہ قران کا ذکر کر رہی ہے۔ ایات ۴:۱۷۴، ۴۲:۵۲، ٦۴:۸ میں بھی قران کو ہی نور کہا گیا ہے۔ جب قران کو نور کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ قران-الحکیم کوئی ۵۰۰ واٹ کا روشنی کا بلب ہے بلکہ یہاں نور کا معنی ہے کہ وہ ہدایت کی کتاب ہے اور مبین کتاب ہے جس میں کوئی کجی نہیں۔ اگر کوئی سنی مشرک، خاتم الأنبياء کو نور کہتا ہے تو پھر آٹھ ارب “مسلمان اور غیر مسلم” بھی نور ہوۓ کیونکہ قران بتاتا ہے کہ سب رسول دوسرے انسانوں کی طرح کے بشر تھے، لہذا سب دوسرے انسان بھی نور ہوئے۔ اس بات کا پھر کیا تک بنتا ہے کہ اخری نبی نور تھے؟ وہ بشر تھے، بشر کی طرح فوت ہوئے اور بشر کی طرح مدفون ہوئے اور ہر سائنسدان کو یہ پتہ ہے کہ انسانی جسم، قبر میں گل سڑ کر مٹی کے ساتھ مٹی ہو جاتا ہے ۲۰:۵۵۔ اب، یہ سنی مشرک، نبی محمد کو سپر-نیچرل ثابت کرنے کے لیے من-گھڑت احادیث سے ثابت کرنے میں جٹ جائیں گے کہ نبی کے جسم کو مٹی نہیں کھاتی۔ انہوں نے ہزاروں خرافات گھڑ رکھی ہیں۔

پھر یہ جعلی ڈاکٹر لکھتا ہے کہ چونکہ خدا نے نبی عیسی کو بغیر باپ کے پیدا کیا اور عیسی کو روح-اللہ کہا تو اسطرح تو نبی عیسی نور کہلانے کے زیادہ مستحق ہیں۔ ان جاہل ملاؤں کو بھلا کس ابلیس نے کہا کہ کتابیں لکھو؟ ادھر مولوی غامدی نے کتابیں لکھ ڈالی ہیں جن میں ادھا سچ اور ادھا جھوٹ ہے اور یہی حالت اس سوڈو ڈاکٹر زبیر کی ہے۔ ادھر طاہر پادری نے اور ندوی نے، مولوی وحیدالدین نے کتابوں کا انبار لگا دیا جوکہ سچ اور جھوٹ کی بدذائقہ کھچڑی ہیں۔ یہ جاہل مرزا انجینئر شائد مريخ کی مخلوق ہے۔ اب اس جعلی حافظ اور جعلی ڈاکٹر زبیر کو اتنا بھی نہیں پتا کہ قران کی متعدد ایات کے مطابق ہر انسان روح-اللہ ہے صرف عیسی ہی نہیں۔ ہم ہر ایک ایت کو جانتے ہیں۔ قران میں ایک ایت بھی یہ نہیں کہتی کہ عیسی بغیر باب کے پیدا ہوئے مگر سنی مترجم ایات کی تحریف کرتے ہیں اور ایات کی غلط انٹرپولیشن اور ایکسٹراپولیشن کرکے ایک نیا قصہ گھڑ لیتے ہیں۔ ایت ٦٦:۱۲ میں تو مریم کو احصنت کہا گیا ہے اور اسی لفظ کی ایک اور کنوٹیشن لفظ “محصنہ” ہے اور اس جعلی ڈاکٹر کو بھی پتہ ہے کہ فقہ کی تمام کتب میں زنا کی سزا دینے سے پہلے زانی عورت سے قاضی پوچھتا ہے کہ تم کنواری ہو یا محصنہ یعنی شادی شدہ ہو؟

قران کی ایت ۳:۳٦ میں مریم کے بچے کا نہیں بچوں کا ذکر ہے۔ کیا سب بچے مرد کے نطفہ کے بغیر پیدا ہو گئے؟ بائبل تو بتاتی ہے کہ نبی عیسی کے چھ اور بہن بھائی تھے اور عیسی کے والد کا نام جوزف یعنی یوسف تھا۔ اب کوئی سنی جاہل کہہ سکتا ہے کہ قران میں تو عیسی کے باب کا نام نہیں ہے، تو ہم اس سنی کو پوچھیں گے کہ قران میں تو نبی محمد کے والدین کا نام بھی موجود نہیں ہے، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی محمد بغیر والدین کے پیدا ہوئے تھے۔ عیسی کی مثال ادم جیسی سے یہاں مراد یہ ہے کہ جیسے بنی-ادم یعنی تمام انسانوں کو مٹی سے بنایا ہے اسی طرح عیسی کو بھی مٹی سے بنایا ہے کیونکہ انسانی جسم کی ترکیب میں وہی عناصر ہیں جو مٹی میں ہیں، قران نے کچھ ایات میں لفظ ادم کو جمع کے صیغے میں بھی استعمال کیا ہے۔ اگر حوا اور ادم کو یہاں لیا جائے تو عیسی کی پیدائش کی مثال حوا والے ادم سے نہیں ملتی کیونکہ اس ادم کی تو ماں بھی نہیں تھی مگر عیسی کی تھی۔ ملاؤں کی اصل ورجن-برتھ کی کہانی اس ایت کے گرد گھومتی ہے جس میں فرشتے نے مریم کو خبر دی کہ اس کے ہاں بچہ پیدا ہوگا تو مریم نے کہا کہ مجھے تو کسی مرد نے ٹچ نہیں کیا تو بچہ کیسے ہوگا؟ یہ بالکل عام سا جواب تھا کیونکہ جب مریم نے یہ جواب دیا اس وقت وہ غیر-شادی شدہ تھی مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ بچے کی خوش خبری کے بعد بی-بی مریم نے شادی ہی نہیں کی۔ جب زکریہ بوڑھے ہو گئے تو انہوں نے لاٹری ڈلوائی اور طبری کے مطابق وہ لاٹری جوزف کے نام نکلی۔ وہ اب اگر جوان مریم کو بغیر شادی کے گھر رکھتا تو شیطان کوئی برا کام بھی کروا سکتا تھا۔ لہذا ایسے خطرے سے بچنے کے لیے جوزف نے مریم سے شادی کر لی۔ وہ حاملہ ہوگئی اور نو ماہ بعد انہوں نے عیسی کو جنم دیا۔ اگر یہ معجزہ ہوتا تو نو ماہ حمل کی کیا ضروت تھی۔ نبی عیسی کی پیدائش پر اپ یہ صفحہ ضرور پڑھیں

پھر یہ مشرک جعلی ڈاکٹر اپنی گپوں کی کتاب مکالمہ میں لکھتا ہے کہ دین کی بنیاد قران اور حدیث پر ہے اور وہ دوسرا مشرک غامدی طوطے کی طرح یہ رٹ لگاتا رہتا ہے کہ دین کا ماخذ قران اور سنت ہے۔ ابھی ہم ان دونوں مشرکین سے پوچھتے ہیں کہ قران کی کونسی ایت میں لکھا ہے کہ دین کی بنیاد قران اور حدیث پر ہے یا دین کی بنیاد قران اور سنت پر ہے؟ قران میں الله جَلَّ جَلَالَهُ نے نبی کو ایت ٦:۱۱۴ میں کہا کہ سوائے اس کتاب قران کے کچھ اور فالو نہیں کرو أَفَغَيْرَ ٱللَّهِ أَبْتَغِى حَكَمًا وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ إِلَيْكُمُ ٱلْكِتَـٰبَ مُفَصَّلًا۔ اور ایت ۲۸:۸۵ میں نے الله جَلَّ جَلَالَهُ نے رسول کو کہا کہ تم پر یہ قران فرض کیا گیا ہے إِنَّ ٱلَّذِى فَرَضَ عَلَيْكَ ٱلْقُرْءَانَ لَرَآدُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ قُل رَّبِّىٓ أَعْلَمُ مَن جَآءَ بِٱلْهُدَىٰ وَمَنْ هُوَ فِى ضَلَـٰلٍ مُّبِينٍ۔ تو یہ مشرک جعلی ڈاکٹر یہ حدیثیں کہاں سے لے ایا؟ ہم کسی اور پیرے میں یہ پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ نبی کے دور میں اور خلفاء کے دور میں احادیث پر پابندی تھی اور خلیفہ عمر کے دور میں احادیث کو لوگوں میں پھیلانا ایک قابل-سزا جرم تھا۔ سارے حوالاجات اپ اس صفحہ پر پڑھ سکتے ہیں تو پھر اس مشرک زبیر نے اپنی من-گھڑت کتب احادیث کو دین کا حصہ کیسے بنا ڈالا؟ قران میں تو ” سنت رسول” کی اصطلاع ہی موجود نہیں ہے پھر یہ مشرکین، یہ سنت-رسول کی بدعا کہاں سے لے آئے؟ رسول اور چار خلفاء نے پیچھے صرف لکھا ہوا قران ہی چھوڑا۔ انہوں نے پیچھے ایک صفحہ بھی حدیث اور سنت کا نہیں چھوڑا، پھر یہ غامدی اور زبیر کہاں سے یہ سنت اور احادیث اٹھا لائے۔ پھر ان دونوں مشرکوں نے من-گھڑت سنت اور حدیث کو دین کا حصہ کیسے بنا ڈالا؟

اور غامدی کی مشرکانہ سنت کی طوطا رٹ کو غلط ثابت کرنے کے لیے ہم نے پورا صحفہ لکھا ہے اس صفحہ کو اس لنک پر ضرور پڑھیے۔ سچ یہ ہے دین کی بنیاد صرف اس مفصل ٦:۱۱۴ اور مکمل ۱٦:۸۹ کتاب پر ہے جو الله جَلَّ جَلَالَهُ نے اپنے اخری نبی محمد عليه السلام کے ذریعے ہم انسانوں تک بھیجی اور اس کتاب کا نام قران-مجید ہے۔ کوئی ایسا شریعت کا قانون، مناسک یا عبادت نماز-پوجا-پاٹ جس کی جڑ قران میں نہیں ہے وہ دین-اسلام کا حصہ نہیں ہے، اس لنک پر پڑھیں کہ قرانی صلاۃ کیا ہے۔ الله جَلَّ جَلَالَهُ کی کتاب کے ساتھ من-گھڑت سنت اور احادیث کی کتب کو شریک کرنا الله جَلَّ جَلَالَهُ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرانا ہے اور سنی اور شیعہ اور غامدی اور اس زبیر جیسے جاہل ۱۲۰۰ سال سے اس شرک کے مرتکب ہو رہے ہیں ۴:۴۸، قران متعدد ایات میں واضع کرتا ہے کہ رسول کے ذمہ صرف ایک کام تھا اور وہ کام تھا قران کو لوگوں تک پہنچانا۔ یہی وجہ ہے رسول اور صحابہ نے پیچھے صرف لکھا ہوا قران ہی چھوڑا۔ تو صاف پتہ چلتا ہے کہ رسوں محض الله جَلَّ جَلَالَهُ کی ایک ایجنسی تھے مَّا عَلَى ٱلرَّسُولِ إِلَّا ٱلْبَلَـٰغُ ۵:۹۹۔ لہذا صرف قران ہی اللہ اور رسول کی صحیح حدیث ہے ٦۹:۴۰، ۳۹:۲۳ إِنَّهُۥ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ، ٱللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ ٱلْحَدِيثِ۔ اور اللہ اور رسول کی اطاعت کا مطلب صرف اس کتاب کو فالو کرنا ہے جو الله جَلَّ جَلَالَهُ نے اپنے رسول کے ذریعے ہم انسانوں تک بھیجی اور وہ صرف قران ہے ٦:۱۹ قُلْ أَىُّ شَىْءٍ أَكْبَرُ شَهَـٰدَةً قُلِ ٱللَّهُ شَهِيدٌۢ بَيْنِى وَبَيْنَكُمْ وَأُوحِىَ إِلَىَّ هَـٰذَا ٱلْقُرْءَانُ لِأُنذِرَكُم بِهِ۔ یہ دونوں مشرک یہ بھی جھوٹ بولتے ہیں کہ سنت اور حدیث میں فرق ہے حالانکہ سنت کی ہر ایک کہانی کی بنیاد کسی من-گھڑت حدیث پر ہوتی ہے۔

اور اس سوڈو سکالر غامدی نے اپنا ایک نیا کٹا چھوڑ ہے اس کے اس کٹے کا نام ایسٹابلشڈ-ہسٹری ہے جو کہ انسانوں کی لکھی ہوئی ہے اور یہ ایک ڈسپیوٹڈ ٹرم ہے سبجیکٹ-و ٹرم ہے۔ اور دین کی بنیاد، تاريخ پر نہیں بلکہ کتاب-الہی پر رکھی جاتی ہے۔ پھر یہ مشرکین ایک اور من-گھڑت اصطلاع “متواتر یا تواتر” کے ذریعے واردات کرتے ہیں حالانکہ جب ایک غلط پریکٹس صدیوں مسلسل چلتی ہے تو وہ متواتر کہلانے لگتی ہے جس کی ایک مثال پانچ پارسی نمازیں ہے۔ عیسائی کہتے ہیں کہ ان کا تلثیث یعنی ٹرنیٹی کا مشرکانہ عقیدہ بھی متواتر ہے۔ علاوہ ازیں، حدیث لٹریچر کے ماہرین نے لکھا ہے کہ لاکھوں احادیث میں سے صرف اٹھ احادیث متواتر ہیں مگر ان اٹھ احادیث کے صحیح ہونے کی تصدیق ذاتی طور پر نہ رسول نے کی نہ ہی چار خلفاء نے کی۔ لہذا یہ اٹھ متواتر احادیث بھی جعلی احادیث ہو سکتی ہیں۔ اس متواتر کی بحث کو پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔

نئے کٹے چھوڑنا، مسٹر غامدی کی ہابی ہے۔ ایک اور نہایت ہی بچگانہ، جاہلانہ، احمکانہ اور پاگلانہ کٹا غامدی صاحب نے یہ چھوڑا ہے کہ ایت ۳:۵۵ میں نبی عیسی کے مرنے کے بعد فرشتے ائے تھے اور نبی عیسی کی لاش کو آسمان کے کسی اس دور کونے میں لے گئے تھے جس کونے کا اڈریس صرف غامدی صاحب کو اور ان کے استاد-محترم جاہل امین اصلاحی کو ہی پتا ہے۔ یاد رہے کہ الله جَلَّ جَلَالَهُ انسان سے اس کی شاہ رگ سے بھی قریب ہے ۵۰:۱٦۔ اور وہ لاش وہاں ۲۰۰۰ سال سے کسی فریزر میں پڑی ہے۔ غامدی کی ایسی احمکانہ باتیں پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ ادمی کسقدر جاہل ہے۔ نہ اسے قران کی سمجھ ہے نہ تاريخ کی اور نہ ہی میٹا-فزکس کی۔ قران ۲۰:۵۵ میں بتاتا ہے کہ تم انسانوں کا جسم مٹی سے بنا ہے اور مرنے کے بعد مٹی میں ہی جائے گا، اسمان پر نہیں۔ مرنے کی بعد صرف روح اٹھائی جاتی ہے ۳۲:۱۱؛ قران کی ایت ۴:۱۵۸ میں رفعہ کا معنی روحانی-بلندی ہے۔ ایت ۴۳:٦۱ میں پرونؤن إِنَّهُ، قران کی طرف اشارہ کرتا ہے، عیسی کی طرف نہیں۔ ایت ۴:۱۵۹ میں ہر یہودی اور نصرانی کی موت کا ذکر ہے۔ اور زبیر جیسے سنی جاہل یہ کہتے ہیں کہ عیسی زندہ اسمان پر اٹھا لیے گئے اور وہ دوبارہ نازل ہوں گے۔ ایسے قصے جعلی احادیث سے پھیلے ہیں۔ مگر قران تو کہتا ہے کہ گو عیسی صلیب پر وہ نہیں مرے مگر لمبی عمر ۵:۱۱۰ کے بعد مر گئے تھے ۵:۱۱۷، ۳:۵۵، ۳:۱۴۴ اور مردے واپس نہیں اتے۔ مگر قران کا سچ ماننے کی بجائے یہ ملاں، اپنا سارا غصہ جھوٹے نبی مرزا قادیانی پر نکال لیتے ہیں۔ پھر سنی اور شیعہ نے مہدی اور دجال کے قصے بھی گھڑ رکھے ہیں۔ نبی عیسی کی حیات پر اپ یہ صفحہ ضرور پڑھیں۔ نبی عیسی پر اس سے اچھا صحفہ اپ کو کہیں اور نہیں ملے گا۔ اس صحفہ میں بڑی گہرائی میں مدلل بحث کی گئی ہے

بہترین دعائیں قران-الحکیم کے اندر موجود ہیں اور ان دعاؤں سے اچھی کوئی دعا ہو ہی نہیں سکتی۔ مگر یہ جعلی ڈاکڑ مولوی زبیر اپنی گپوں کی کتاب مکالمہ میں لکھتا ہے کہ بس درود ابراہیمی کو اپنا ورد بنا لیں۔ اوئے مشرک کے بچے: تو، یہ من-گھڑت درود لایا کہا سے ہے؟ دین اسلام کے متعلق، قران مفصل ٦:۱۱۴ اور مکمل ۱٦:۸۹ کتاب ہے اور چنگی-بھلی بڑی کتاب ہے۔ اگر تمہارا یہ من-گھڑت درود اتنا ہی اہم ہوتا جتنا تم بتا رہے ہو تو اس درود کو مفصل ٦:۱۱۴ اور مکمل ۱٦:۸۹ قران میں موجود ہونا چاہیے تھا؟ جس طرح تمہارے ایرانی پارسی حدیث اماموں نے پانچ پارسی نمازوں کو پارسی مذہب سے امپورٹ کیا، ایسے ہی بغداد کے ایران-نژاد بنی-بویہ کے شیعہ حاکم معزدولہ نے یہ درود ابراہیمی فورج کروا کر پارسی نمازوں کی تشاھہد میں ڈلوا دیا۔ اس نے اس کو، پرانی کتابوں میں بھی ڈلوا دیا۔ ہماری ۱۴۰۰ سالہ تاريخ کے سب سے بڑے فراڈ، دو تھے، ایک دجال شافئی اور دوسرا معزدولہ۔ او جعلی مشرک ڈاکٹر: رسول اور صحابہ نے تو پیچھے ایک صفحہ بھی حدیث سنت کا نہیں چھوڑ پھر تم یہ خرافات کہاں سے لے ائے؟ یہ من-گھڑت درود کہاں سے لے ائے؟

سنی اور شیعہ، ہر راشنل ڈبیٹ میں ایک منٹ کے اندر اندر صرف چار قرانی ایات ٦:۱۱۴۔ ۵:۴۴، ۳:۱۰۳، ۳:۱۰۵ سے مکمل ناک-آؤٹ ہو جاتے ہیں کیونکہ شیعہ اور سنی فرقوں کی بنیاد جھوٹ، من-گھڑت کتب، فراڈ، کفر اور شرک پر رکھی گئی ہے اور ایسی شیطانی-عمارت جس کی بنیاد جھوٹ، من-گھڑت کتب، فراڈ، کفر اور شرک پر کھڑی ہو، مسلسل متزلزل رہتی ہے۔ ہم جیسے ایت ۲۲:۷۸ کے سچے مسلمان کے ساتھ، کسی راشنل ڈبیٹ میں، جب کوئی سنی مشرک شکست کھا جاتا ہے تو وہ مشرک اپنی مشرکانہ رائفل کی ميگزین کی اخری چھ مشرکانہ گولیاں فائر کرتا ہے۔ اور ان کی وہ چھ مشرکانہ گولیاں ان کے ۱۲۰۰ سال پرانے رٹے-رٹائے یہ چھ احمقانہ سوال ہیں۔ وہ سوال یہ ہیں: کدھر ہے قران میں نماز کی تفصیل؛ کدھر ہے قران میں وضو؛ کدھر ہے قران میں غسل؛ کدھر ہے قران میں حج کے مناسک؛ کدھر ہے قران میں زکوۃ؛ کدھر ہیں قران میں روزے یعنی فاسٹنگ۔ اپ، ان کے ان بے-تکے سوالات سے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ مشرک، ایات ٦:۱۱۴، ۱٦:۷۹ کا انکار کر رہے ہیں کیونکہ یہ ایات کہتی ہیں کہ دین اسلام کے معاملہ میں قران مفصل ہے اور مکمل ہے۔ اور قران کی ایات کہتی ہیں جو قران کی ایک ایت کا بھی انکار کرے وہ کافر ہے۔ ان مشرکین کے ان سوالات کی نوعیت کچھ ایسے ہے کہ اگر کوئی سنی یہ سوال کر دے کہ اگر قران مکمل اور مفصل ہے تو قران میں ایٹم بم بنانے کا فارمولا کیوں نہیں ہے؟ ایسے مشرک کے لیے جواب یہ ہو گا کہ قران، نہ تو وکی-پیڈیا ہے اور نہ ہی ایٹمی-فزکس کی کتاب ہے۔ قران، اللہ تعالی کے ان قوانین اور اخلاقی-ضوابط کی کتاب ہے جن کے مطابق یہ زندگی بسر کی جائے۔

اگر قران میں پانچ نمازوں کی تفصیل نہیں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ قران کے مطابق پانچ نمازیں، دین کا حصہ نہیں ہیں۔ اگر دین کا حصہ ہوتیں تو قران، ان کی تفصیل ضرور بتاتا۔ قران، صلاۃ کی بات کرتا ہے، اور ایت ۲:۱۷۷ میں نماز کی پوجا-پاٹ کو فضول قرار دیتا ہے اور کہتا ہے یہ پوجا-پاٹ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے لَّيْسَ ٱلْبِرَّ أَن تُوَلُّوا۟ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ ٱلْمَشْرِقِ وَٱلْمَغْرِبِ۔ قرانی صلاۃ کا اس نماز سے کوئی تعلق نہیں جو ایرانی پارسیوں سے امپورٹ کی گئی تھی۔ اور پھر اڑنے والے کھوتے براق کی حدیث فورج کرکے اس نماز کو اسلام کا حصہ بنا دیا گیا تھا- یہ جاننے کے لیے کہ قرانی صلاۃ کیا ہے، یہ صفحہ پڑھیں۔ یہ جاننے کے لیے کہ اڑنے والے کھوتے براق والی حدیث کیوں، کس نے، کیسے، اور کب فورج کی گئی یہ صفحہ ضرور پڑھیں۔ ان سنی جاہلوں کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ ایت ۵:٦ میں مکمل وضو اور غسل دیا ہوا ہے جوکہ صلاۃ-جمعہ کے اجتماع یعنی میٹنگ میں شامل ہونے سے پہلے ضروری ہے۔ روزہ کا طریقہ قران نے سادہ مگر مکمل دیا ہے کہ ڈان سے ڈسک تک کھانا پینا بند رکھو، اور روزے کے دوران، بیوی سے مباشرت نہیں کرو۔ زکوۃ، اسلامی حکومت کا اقتصادی نظام ہے اور ٹیکس اس نظام کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ ملک کے حالات کے مطابق مجلس-شورہ ٹیکس کی شرح مقرر کر سکتی ہے۔ وہ دو فیصد بھی ہوسکتی ہے پانچ فیصد بھی ہو سکتی ہے، ڈھائی فیصد بھی ہو سکتی ہے اور پندرہ فیصد بھی۔

قران نازل ہونے سے پہلے مکہ کے مشرک بھی اپنی نوعیت کا حج کرتے تھے جس میں وہ پتھر کے بنے ہوئے کعبہ کو سجدے کر کے پوجتے تھے جیسے آج کل اسے سنی اور شیعہ اپنی نمازوں میں پوجتے ہیں، مشرک اپنی برانڈ کے حج میں پتھر کے بنے کعبہ کے گرد سات چکر لگاتے تھے، طلبیہ پڑھتے تھے اور حجر-اسود کو چومتے بھی تھے۔ قران نے، مشرکین کے یہ مناسک، اسلامی-حج کا حصہ نہیں بنائے،۔ اسی لیے مشرکین کے ان مناسک کا قران میں ذکر نہیں ہے۔ المختصر:اسلامی حج کے وہی مناسک ہیں جن کا قران نے ذکر کیا ہے۔ جن مناسک کا ذکر مکمل اور مفصل قران نے نہیں کیا وہ اسلامی حج کا بالکل بھی حصہ نہیں۔ ابھی، کوئی سنی یہ کہے گا کہ نماز اور حج کے مناسک اس نے حدیث اور سنت کی کتب سے سیکھے ہیں۔ تو، اس مشرک کو ہمارہ جواب یہ ہوگا کہ جناب مشرک صاحب: اپ سفید جھوٹ بول رہے ہیں کیونکہ رسول، خلفاء اور تمام صحابہ نے پیچھے ایک صفحہ بھی حدیث اور سنت کا نہیں چھوڑا؛ صرف لکھا ہوا قران چھوڑا۔ اور سنی فرقہ کی اپنی بیسیوں کتب میں لکھا ہے کہ رسول اور چار خلفاء کے دور میں حدیث اور سنت کے قصے کہانیوں پر پابندی تھی، اور اپ اس کا ثبوت سارے حوالاجات کے ساتھ اس صفحہ پر خود پڑھ سکتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ جس گروہ نے پارسی نمازیں اسلام میں داخل کیں، اسی گروہ نے حدیث سنت اسباب-نزول اور تفسیر کی کتب فورج کیں۔

ہم قران-الحکیم کی ہر ایت مبارکہ کو جانتے ہیں۔ قران-مجید کسی ایت میں بھی یہ نہیں کہتا کہ پتھر کے بنے ہوئے کعبہ کو مکہ کے مشرک بت-پرستوں کی طرح سجدے کر کے پوجو۔ قران تو ایت ۲:۱۱۵ میں کہتا ہے کہ تم جدھر بھی رخ کرو وہاں الله جَلَّ جَلَالَهُ موجود ہے۔ یہاں وجود سے مراد مادی وجود نہیں ۲۴:۳۵۔ اس لیے الله جَلَّ جَلَالَهُ کسی خاص مکعب نما کمرے میں یا کسی خاص سمت میں مقید نہیں۔ وہ تو شاہ-رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ۵۰:۱٦ پھر ان فرقہ پرستوں نے اپنے خدا کو ایک مکعب نما کمرے میں کیوں مقید کر دیا ہے؟ کچھ نے اپنے خدا کو اسمان کے کسی کونے میں مقید کر رکھا ہے حالانکہ ایت ۲:۲۵۵ میں لکھا ہے کہ اس کی کرسی یعنی عرش پوری کائنات میں پھیلا ہوا ہے یعنی وہ ہرجگہ موجود ہے وَسِعَ كُرْسِيُّهُ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ ۔ ارے بھائی اسے ڈھونڈنا ہے تو مکہ کی بجائے اسے اپنے مٹی کے بنے گھر میں ڈھونڈو کیونکہ وہ شاہ رگ سے بھی قریب ہے۔ قران-مجید کی کوئی ایت بھی یہ نہیں کہتی کہ کعبہ کو سجدہ کرنا قرانی-صلاۃ کا حصہ ہے۔ اور قران کے اندر تو لفظ سجدہ کے معنی “الله جَلَّ جَلَالَهُ کے احکام کے آگے جھکنا ہے”، کعبہ کی طرف بت-پرستوں کی طرح زمین پر متھا ٹیکنا نہیں۔

قران-مجید ایات ۲۲:۱۸، ۵۵:٦ میں بتاتا ہے کہ چاند، سورج اور پہاڑ بھی سجدہ کرتے ہیں۔ کیا اپ نے کبھی چاند یا سورج یا پہاڑ ہمالیہ کو کسی بریلوی یا چڑیلوی یا وھابی یا دیو-بندی یا جن-بندی یا نس-بندی مسجد میں داخل ہو کر کعبہ کی طرف متھا ٹیکتے دیکھا ہے؟ قران، ایت ۲۴:۴۱ میں یہ بھی بتاتا ہے کہ پرندے بھی صلاۃ کو فالو کرتے ہیں۔ اگر صلاۃ کے معنی نماز-پوجا پاٹ ہے تو ہم، شیعہ اور سنی ملاؤں سے پوچھتے ہیں کہ کیا پرندے شیعہ برانڈ کی اذان دیتے ہیں یا سنی برانڈ کی؟ کیا پرندے شیعہ حاکم معزدولہ کا فورج کیا ہوا درود ابراہیمی بھی پارسی نماز کی تشاھہد میں پڑھتے ہیں؟ تشاھہد کے دوران پرندے کیا شہادت کی انگلی کو اٹھا کر حنفی طریقے سے انگلی ہلاتے ہیں یا مالکی طریقے سے یا شافئی طریقے سے یا حنبلی طریقے سے؟ کیونکہ چاروں کا طریقہ مختلف ہے۔ کیا پرندے فاتحہ پڑھتے ہیں؟ اور کیا پرندے فاتحہ کے اخر میں چرچ سے نقل کی ہوئی “آمین” بریلویوں کی طرح پڑھتے ہیں یا چلا کر وھابیوں کی طرح ایک کلومیٹر لمبی آآآآآآآ۔۔۔۔۔۔۔۔مین پڑھتے ہیں؟ کیا پرندوں کو پتہ ہے کہ نماز-وسطی کونسی نماز ہے؟ پرندے بیچاروں کو بھلا کیسے پتہ ہو گا جب سنی اور شیعہ ملاؤں کو ۱۲۰۰ سال سے نہیں پتہ کہ صلاۃ-وسطی جس کو وہ نماز-وسطی کہتے ہیں کونسی نماز ہے؟

سیدھی سے بات ہے کہ اگر خاتم الأنبياء عليه السلام اور صحابہ رضي الله عنهم نے دس برس تک ہر روز پانچ نمازیں پڑھی ہوتیں تو بچے بچے کو پتہ ہوتا کہ نماز-وسطی کونسی ہے۔ خاتم الأنبياء عليه السلام اور صحابہ رضي الله عنهم کی وفات کے بہت بعد یہ پانچ پارسی نمازیں، براق کی حدیث فورج کرکے اسلام میں داخل کی گيئں۔ اس لیے ان ملاؤں کو صلاۃ وسطی کے معنی کا پتہ ہی نہیں۔ چنانچہ صدیوں سے سنی ملاں، نماز-وسطی کی اپنی اپنی کہانی سنا رہے ہیں۔ مالک کی مؤطا میں ایک روایت بتاتی ہے کہ نماز-وسطی کی نماز ظہر کی نماز ہے- مگر اسی کتاب کی ایک اور روایت کہتی ہے کہ نماز-وسطی کی نماز فجر کی نماز ہے۔ نسائی لکھتا ہے کہ نماز-وسطی سورج کے طلوع ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہے۔ یہ کونسی نماز ہے مسٹر نسائی؟ (اپ کو کچھ سمجھ ائی؟)۔ پارسی حدیث فورجر ترمذی لکھتا ہے کہ نماز-وسطی کی نماز عصر کی نماز ہے مگر فقہ مالکی کا ایک بہت بڑا برج حافظ ابن عبد-البر اپنی کتاب فتح-البر میں لکھتا ہے کہ کسی حال میں بھی عصر کی نماز، نماز-وسطی نہیں ہے۔ طبری لکھتا ہے کہ نماز-وسطی کی نماز فجر کی نماز ہے۔ طبری ایک اور جگہ لکھتا ہے کہ جب ایک ادمی نے خاتم الأنبياء سے پوچھا کہ صلاۃ وسطی کونسی ہے تو خاتم الأنبياء نے جواب دیا کہ صلاۃ-وسطی، صلاۃ ہے (اپ کو کچھ سمبھ ائی؟)۔ مفسر الرازی لکھتا ہے کہ نماز-وسطی کی نماز فجر کی نماز ہے۔ شامی ملاں ابن-کثیرلکھتا ہے کہ نماز-وسطی کی نماز عصر کی نماز ہے مگر ایک اور صفحہ پر ابن-کثیر لکھتا ہے کہ نماز-وسطی کی نماز فجر کی نماز ہے۔ ایک اور صفحہ پر ابن-کثیر لکھتا ہے کہ نماز-وسطی کی نماز ظہر کی نماز ہے(کیا اپ کو کچھ سمبھ آئی یہ خرافات پڑھ کر؟)- سنی اماموں کے صلاۃ-وسطی کے متعلق یہ اٹکل-پچو اور اندازے پڑھ کر اگر اپ، ابھی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ خاتم الأنبياء عليه السلام اور صحابہ رضي الله عنهم، موجودہ پانچ پارسی نمازیں پڑھ کر پتھر کے بنے ہوئے کے کعبہ کو سجدے کیا کرتے تھے تو صاحب: پھر، اپ لاعلاج ہیں۔ ابن-شیبہ، مصناف میں لکھتا ہے کہ کہ نماز-وسطی کی نماز عصر کی نماز ہے۔ اسی کتاب میں ایک اور جگہ لکھا ہے کہ جب ابن-سیرن کو پوچھا گیا کہ صلاۃ وسطی کونسی صلاۃ ہے تو اس نے جواب دیا کہ یہ وہ صلاۃ ہے جس کے متعلق لوگوں کو احتیاط برتنی چاہیے (اپ کو کچھ سمبھ ائی؟)۔ اسی کتاب مصناف ابن-شیبہ میں ایک اور جگہ لکھا ہے کہ کہ نماز-وسطی کی نماز ظہر کی نماز ہے۔ اسی کتاب میں ایک اور جگہ لکھا ہے کہ نماز-وسطی کی نماز فجر کی نماز ہے۔ مصناف عبدالرزاق کی ایک رویت میں لکھا ہے کہ جب ابن-جريج نے عطاء سے پوچھا کہ صلاۃ-وسطی کونسی صلاۃ ہے تو اس نے ان الفاظ میں جواب دیا “اظنھا الصبح” میرا گیس ہے یعنی اندازہ ہے کہ وہ فجر ہے۔ یعنی اپ نے دیکھا کہ ان کے امام، صدیوں سے صلاۃ-وسطی کے متعلق گیس یعنی اٹکل-پچو لگا رہے ہیں۔ اگر خاتم الأنبياء عليه السلام اور صحابہ رضي الله عنهم نے روزانہ واقعی پانچ نمازیں پڑھی ہوتیں، تو صلاۃ-وسطی کے بارے میں ایسے اٹکل-پچو اختلافات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا- نماز کے متعلق سب کی سب احادیث اسی گینگ نے فورج کی ہیں جنہوں نے پانچ پارسی نمازوں کو براق کی حدیث فورج کرکے اسلام میں داخل کر دیا تھا۔

ایت ۲:۱۷۷ صاف بتا رہی ہے کہ نمازوں کی پوجا-پاٹ کوئی نیکی کا کام نہیں مگر سنی مترجم، ترجمہ کرتے وقت اس ایت ۲:۱۷۷ کے ترجمہ کی تحریف کر دیتے ہیں۔ نماز کے متعلق، اور بھی کافی اختلاف ہیں امام کے پیچے فاتحہ پڑھنی ہے کہ نہیں۔ فاتحہ سے پہلے بسم-اللہ پڑھنی ہے کہ نہیں۔ رفعہ-یدین کرنا ہے کہ نہیں، شلوار ٹخنوں سے اوپر ضروری ہے کہ نہیں- حقیقت یہ ہے کہ نہ نماز پوجا-پاٹ اسلام کا حصہ ہے اور نہ ہی خاتم الأنبياء عليه السلام اور صحابہ رضي الله عنهم نے کبھی یروشلم یا کعبہ کی طرف سجدے کر کے نماز پڑھی۔ سنی حدیث اماموں نے یہ سفید جھوٹ لکھا ہے کہ پہلے، مسلمان یروشلم کی مسجد-اقصی کی طرف سجدے کر کے نماز پڑھا کرتے تھے اور بعد میں پارسی بخاری کا کوئی نامعلوم ادمی ایا اور اس نے مسلمانوں کو کہا کہ منہ مکہ کے کعبہ کی طرف موڑ لو۔ یہ کہانی دو سو فیصد من-گھڑت ہے۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق اس کہانی کا نہ سر ہے نہ پاؤں۔ سب پڑھے لکھے تاريخ-دان جانتے ہیں کہ خاتم الأنبياء کی زندگی میں فلسطین میں نہ کسی مسجد-الاقصی کا وجود تھا نہ ہی کسی یہودی ٹیمپل کا وجود تھا۔ جو مسجد-الاقصی اج ہم فلسطین میں دیکھتے ہیں اسے بنو-امیہ کے خلفاء نے خاتم الأنبياء کی موت کے ساٹھ سال بعد تعمیر کروایا تھا مگر معراج کی من-گھڑت احادیث کہتی ہے کہ معراج کے دوران خاتم الأنبياء، براق پر اڑ کر فلسطین کی اس مسجد-الاقصی میں گئے تھے جو مسجد-الاقصی اس وقت موجود ہی نہیں تھی۔ اس سے ثابت ہوا کہ براق والی حدیث، سو-فیصد من-گھڑت ہے، اور وہ پانچ نمازیں جو اس جعلی براق پر لاد کر سنی لائے تھے وہ بھی آٹو-میٹیکلی جعلی ٹھری کیونکہ پانچ نمازوں کی کہانی اس براق والی جعلی حدیث کا حصہ ہے۔ بڑے بڑے مسلم سکالرز نے اس براق کے قصے کو تاریخی-فکشن قرار دیا ہے۔ حتی کہ مفسر الرازی نے بھی براق کے قصے کو قبول نہیں کیا۔ پھر یاد دلاتا چلوں کہ پانچ نمازیں اسی جعلی براق کے ذریعے سے ہی ہم مسلمانوں پر مسلط کی گئیں۔ چونکہ براق جعلی ہے اس لیے جو پانچ نمازیں، اس جعلی براق کی کمر پر لاد کر لائی گئیں وہ بھی جعلی ہیں۔

قران، ایات ۵:۹۵، ۵:۹۷ میں کعبہ کے دو فنکشن بتاتا ہے کعبہ قربانی کی جگہ ہے، اور کعبہ، حجاج کی لیے پناہ-گاہ بھی ہے۔ قران میں کہیں نہیں لکھا کہ کعبہ کو سجدے کرو۔

اپ، اب سمجھ سکتے ہے کہ پانچ نمازوں کا پورا پلاٹ، جعلی ہے۔ اور يروشلم میں یہودیوں کے ٹیمپل کو رومن-جنرل ٹائٹس نے سال ستر عیسوی میں مکمل تباہ کر دیا تھا اور خاتم الأنبياء کے زمانے میں یروشلم میں کوئی یہودیوں کا ٹیمپل بھی موجود نہیں تھا۔ لہذا دو-قبلہ کی پوری کی پوری کہانی من-گھڑت ہے۔ بنو-امیہ نے امام زہری کو دبا کر کہا تھا کہ یہ دو-قبلہ والی حدیث فورج کرو کیونکہ بنو-امیہ کا مکہ کے حاکم عبداللہ بن زبیر سے سیاسی جھگڑا تھا۔ شام کے مسلمان جب مکہ حج کے لیے اتے تھے تو عبداللہ بن زبیر حجاج سے اپنی وفاداری کا حلف لیتے تھے۔ جب دمشق میں بنو-امیہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے شامی مسلمانوں کو مکہ، حج پر جانے سے روک دیا۔ مگر شامی مسلمانوں نے شور مچایا کہ خلیفہ ہمیں حج سے کیسے منع کر سکتا ہے جب کہ قران ہمیں حج کرنے کو کہتا ہے۔ اس پر بنو-امیہ کے خلیفہ نے اپنے درباری مولوی امام زہری کو دو-قبلہ یعنی قبلاتین کی حدیث کو فورج کرنے کا حکم دیا۔ بعد میں بنو-امیہ نے یروشلم میں مسجد بنوا کر اسے ایت ۱۷:۱ سے کنیکٹ کرنے کے لیے اس مسجد کا نام مسجد-الاقصی رکھ دیا اور شامی مسلمانوں کو کہا کہ اب مکہ کی بجائے اپ اس نئی مسجد-الاقصی میں حج کریں۔ چنانچہ شامی مسلمان تقریبا سولہ مہینے تک وہاں جا کر جعلی نمبر-دو حج کرتے رہے اور گولڈن گھمبد کے گرد سات چکر لگاتے رہے۔ مگر جب بنو-امیہ نے عبداللہ بن زبیر کو حجاج بن یوسف کے ذریعے قتل کروا کر مکہ پر قبضہ کر لیا تو پھر شامی مسلماں دوبارہ حج کے لیے مکہ جانے لگے۔ یہ سارہ واقعہ پرانے عرب تاريخ-دانوں کی کتب میں لکھا ہوا ہے اور ہم نے اسے خود پڑھا ہے۔ باقی تفصیل اپ ہمارے صلاۃ کے صفحہ میں پڑھ سکتے ہیں۔

اب اپ کے ذہن میں یہ سوال اٹھ چکا ہو گا کہ پھر قرانی ایت ۱۷:۱، کونسی مسجد-الاقصی کی طرف اشارہ کر رہی ہیں؟ اس کا جواب بھی عربوں کی پرانی کتابوں میں موجود ہے۔ ۱۴۰۰ سال پہلے مدینہ منورہ کے بہت سے نام تھے اور ان ناموں میں سے مدینہ شہر کا ایک معروف نام مسجد-الاقصی بھی تھا۔ تو بات صاف ہو گئی کہ ایت ۱۷:۱ خاتم الأنبياء کے مکہ سے مدینہ کی طرف رات کے سفر کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ اس سفر میں جس اونٹنی پر خاتم الأنبياء سوار تھے اس کا نام قصوی تھا اور لفظ قصوی، لفظ مسجد-الاقصی کا مؤنث ہے۔جو شاہ رگ سے قریب ہے وہ جانتا ہے کہ ہمارہ اس کے سوا، کوئی اور ایجنڈا نہیں ہے کہ ایت ۲:۴۲ پر عمل کرتے ہوئے اپ کو صرف سچ بتایا جائے۔ قران کی ایت ۲:۱۷۷ کے مطابق، نمازوں میں نیکی نہیں ہے بلکہ نیکی یہ ہے کہ مسلمان بننے کے بعد اپ اپنے والدین اور بال بچے کی خدمت کریں۔ رشتہ داروں کی مدد کریں۔ معذور اور غریب کی مدد کریں۔ یعنی نیکی، خدمت-خلق میں ہے نماز-پوجا-پاٹ میں نہیں ہے

سنی اور شیعہ امام، صدیوں سے اپنے پیروکاروں کو یہ بتا رہے ہیں کہ قبلہ کے معانی وہ مکعب نما کمرہ ہے جس طرف سجدے کر کے پانچ پارسی نمازیں پڑھی جاتی ہیں۔ مگر یہ بات غلط ہے۔ قران-مجید سب سے زیادہ خوبصورت کتاب ہے۔ اس میں تصریف کے ذریعے ایات ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں۔ ایت ۱۰:۸۷ کے مطابق، الله جَلَّ جَلَالَهُ نے حضرت موسی کو حکم دیا تھا کہ مصر سے کچھ گھر لے کر ان کو قبلہ بنا لو اور وہاں سے اسلام کے پیغام کی لوگوں کو تبلیغ کرو۔ کیا یہ ایت موسی کو یہ حکم دے رہی ہے کہ ان گھروں کو قبلہ بنا کر ان گھروں کو نماز میں سجدے کر کے پوجنا شروع کر دو؟ نہیں۔ اس بات کا کوئی تک نہیں بنتا۔ یہ ایت ۱۰:۸۷ صاف بتا رہی ہے کہ قبلہ کا مطلب جی-ایچ-کیو یعنی جنرل-ھیڈ-کوارٹر ہے مرکز ہے۔ جب قران کہتا ہے کہ مسجد-الحرام مسلمانوں کا قبلہ ہے تو اس کے معانی جی-ایچ-کیو یعنی جنرل-ھیڈ-کوارٹر ہے۔

ایت ۲:۱۴۲ میں مشرکین مکہ کی طرح، مسلمانوں کو کعبہ کو سجدے کر کے پوجنے سے منع کیا گیا سَيَقُولُ ٱلسُّفَهَآءُ مِنَ ٱلنَّاسِ مَا وَلَّىٰهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ ٱلَّتِى اور اسی ایت کے اخری حصہ میں ان الفاظ قُل لِّلَّهِ ٱلْمَشْرِقُ وَٱلْمَغْرِبُ میں بتا بھی دیا گیا کہ ان کو ایسا کرنے سے کیوں منع کیا گیا ہے کیونکہ الله جَلَّ جَلَالَهُ ہرجگہ ہرطرف موجود ہے اور کعبہ میں ہی مقید نہیں۔ مگر ان احمقوں ٱلسُّفَهَآءُ کو جنہیں کعبہ کی پوجا پاٹ کی لت پڑ چکی تھی کہا کہ ہمیں کعبہ کی پوجا-پاٹ سے کیوں منع کیا گیا ہے، اور پھر ان احمقوں ٱلسُّفَهَآءُ نے ایت ۲:۱۴۲ کا ترجمہ ہی بدل ڈالا۔ اس ایت کے ترجمہ میں انہوں نے یہود، منافقین اور یروشلم جیسے الفاظ ڈال کر پورے ترجمہ کی تحریف کردی۔ اور اس ایت کو اس من-گھڑت قصے سے جوڑ دیا جس میں یہ کہا گیا کہ مسلمان، یروشلم کی مسجد الاقصی (جو اس وقت موجود ہی نہیں تھی) کی طرف سجدے کر کے نماز پڑھ رہے تھے اور بخاری کی کتاب کے مطابق کوئی نامعلوم شخص ایا اور مسلمانوں کو کہا اب یروشلم سے مکہ کے کعبہ کی طرف منہ موڑ لو۔ یہ کہانی ایک ہزار-فیصد من-گھڑت ہے۔ قران-مجید ہمیں بتاتا ہے اس زمین پر سب سے پہلا قبلہ مکہ والی مسجد الحرام ہے۔ تو پھر مکہ کے لوگوں کو اس وقت یروشلم کی اس مسجد-الاقصی کو نماز میں سجدے کرنے کی کیا ضرورت تھی، اور نبی-کریم کی حیات میں یروشلم میں کوئی مسجد موجود ہی نہیں تھی نہ یہودیوں کا ٹیمپل موجود تھا۔ یروشلم والی مسجد-الاقصی تو نبی-کریم کی موت کے ساٹھ سال بعد بنو-امیہ نے تعمیر کروائی تھی اور اسے بات کو سب تاريخ دان جانتے ہیں

اپنی گپ-شپ شیطانی کتاب “مکالمہ” میں یہ مشرک کذاب جعلی ڈاکٹر، زبیر، سنی فرقہ کی صدیوں پرانی وہی رٹی-رٹائی منترا کو خوب خباثت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ “قرآن-مجید اور سنت ہمیں اللہ کے رسول سے قطعی خبر کے ذریعے سے ملے ہیں ۰۰۰ اور اس کے علاوہ کوئی ثبوت نہیں کہ اج کا قران وہی قران ہے جو نبی محمد پر نازل ہوا تھا”۔ حالانکہ قران کے اندر لکھا ہوا ہے کہ قران نازل ہونے کہ بعد لکھا جاتا تھا ۸۰:۱۲، ۸۰:۱۳، ۸۰:۱۴، ۸۰:۱۵، ۸۰:۱٦۔ اور اس لکھے ہوئے قران کے عربی کے ٹیکسٹ کو حافظ یاد بھی کر لیتے تھے۔ اس طریقہ کو ڈبل-پری-زر-ویشن کہتے ہیں کیونکہ آگر کوئی ٹیکسٹ کو بدلے، تو حافظ اس تبدیلی کو پکڑ لے۔ اسی طریقے سے الله جَلَّ جَلَالَهُ نے قران کو محفوظ بنایا ہوا ہے ۱۵:۹، ۱۷:۸۸، ۴۱:۴۲۔ پھر اس مشرک کی خباثت کا اندازہ اپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ ان سنیوں کی اپنی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ لکھا ہوا قران، نبی کی زندگی میں موجود تھا۔ حتی کہ اس مشرک کے پارسی مامے، بخاری کی کتاب میں بھی لکھا ہے کہ جب نبی کی فوتگی کے بعد صحابہ، نبی کے کمرہ میں داخل ہوئے ان کو ما بین دفتین، قران کی کتاب کے سوا کچھ نہ ملا۔ انہی کے امام نووی نے اپنی کتاب فی-الحروف والاصوات میں لکھا ہے کہ ما بین دفتین سے مراد قران ہے۔ ان کے اپنے امام طحاوی نے بھی لکھا کہ ما بین دفتین سے مراد صرف قران ہے۔ علاوہ ازیں ان کی اپنی کتب بخاری، مسلم اور مؤطا، اور کئی اور کتب میں بھی لکھا ہے کہ رسول نے کہا کہ سفر کے دوران، قران کو دشمن کے علاقہ میں مت لے جاؤ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر رسول کے زمانے میں قران، کتابی شکل میں موجود نہیں تھا تو وہ کیسے کہہ سکتے تھے کہ سفر کے دوران، قران کو دشمن کے علاقہ میں مت لے جاؤ؟ اس کے علاوہ، اسی سنی فرقہ کی کئی کتب مثلا مستدراک میں لکھا ہے کہ جب نبی-کریم نے حکیم بن حزام کو گورنر بنا کر یمن بھیجا تو اس کو کہا کہ قران کو صرف پاکيزگی کی حالت میں ٹچ کرنا۔ اب نقطہ یہ ہے کہ قران کو اسی وقت ہی ٹچ کیا جا سکتا ہے جب وہ کتابی شکل میں موجود ہو۔ اور الله جَلَّ جَلَالَهُ، قران کی ایت ۵٦:۷۹ میں بھی حکم دیتے ہیں کہ قران کو صرف پاکیزگی کی حالت میں ہی ہاتھ لگاؤ۔ یہ سارے آرگومنٹ صاف صاف بتاتے ہیں کہ نبی کے دور میں، قران، کتابی شکل میں موجود تھا۔ نبی کی موت کے بعد، خلفاء نے اسی قران کو کاپی کیا جو نبی کے پاس تھا۔ مگر چند سنی مشرک اماموں نے جنگ یمامہ جیسی الحاد روایات فورج اس لیے کیں تاکہ قران کا درجہ کم کرکے اس کو ان مشرکوں کی من-گھڑت کتب سنت اور احادیث کے برابر لا کھڑا کیا جائے، اسی لیے یہ حرام کے پلے مشرک، ہمیشہ یہ جھوٹ بار بار دھراتے ہیں کہ قرآن-مجید، اور سنت اور حدیث، ان کو اللہ کے رسول سے قطعی خبر کے ذریعے سے ملے ہیں۔

قران بار بار متعدد ایات میں دھراتا ہے کہ رسول کے ذمہ صرف قران کو لوگوں تک پہنچا دینا تھا۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ خدا نے رسول کو قران کی کمپی-لیشن مکمل ہونے سے پہلے ہی واپس بلا لیا ہو۔

ابن-اسحاق کی کتاب جسے ابن-ھشام نے ری-رائٹ کیا، حضرت عمر الخطاب رضي الله عنه کے اسلام قبول کرنے کے واقعہ میں بتاتی ہے کہ جب عمر گھر میں داخل ہوئے تو ان کی بہن قران سے تلاوت کر رہی تھی اور جب عمر نے کہا یہ کتاب مجھے دو تو بہن نے کہا کہ اس کتاب کو ٹچ کرنے سے پہلے غسل کرو۔ عمر نے غسل کرکے جب قران کی کتاب سے سورہ طہ پڑھی تو اسلام قبول کر لیا۔ یہ روایت بھی ظاہر کرتی ہے کہ نبی کی زندگی میں لوگوں کے پاس قران، کتابی شکل میں موجود تھا۔ سنی فرقہ کی اپنی کتب میں تیس سے زیادہ روایات میں لکھا ہے کہ قران کی کمپی-لیشن نبی کے دور میں کی گئی۔ ایسی سب روایات اپ ہمارے اس صفحہ پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کے مشرک منافق اماموں نے قران کا درجہ کم کرنے کے لیے ایسی روایات بھی فورج کیں جو بتاتی ہیں کہ قران پتھر پر، ہڈیوں پر اور چمڑے پر لکھا جاتا تھا۔ حالانکہ ان کی اپنی کتب میں لکھا ہے کہ جو خطوط نبی نے غیر-مسلم حکمرانوں کو لکھے وہ کاغذ پر لکھے۔ اور یہ بھی ان کی ہی رویت ہے کہ نبی نے کہا مجھ سے قران کے سوا کچھ نہ لکھو۔ اس سے ظاہر ہے کہ اس وقت کے لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ قران کی ایت ۲۵:۵ میں بھی لکھنے کا یعنی کتابت کا ذکر ہے۔ قران یہ بھی کہتا ہے کہ تجارتی معائدہ کو لکھ لیا کرو اور قران، وصییت لکھنے کے لیے بھی حکم دیتا ہے۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ نبی کے دور میں لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ عیسائیوں اور یہودیوں کی جو کتب، پہاڑ سینائی کے غاروں سے دریافت ہوئی ہیں وہ قران کے نازل ہونے سے تقریبا ۳۰۰ سال پہلے پارچامنٹ کے کاغذ پر لکھی گئی تھیں، تو پھر قران کے پارچامنٹ کاغذ پر لکھے جانے میں کیا رکاوٹ تھی؟ اپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کاغذ، قران-الحکیم کے نازل ہونے سے ۸۰۰ سال پہلے ایجاد ہو چکا تھا۔ يورپ کو، عربوں نے ہی کاغذ بنانا سکھایا تھا۔

ڈاکٹر پروفیسر جان-برٹن پی-ای-ڈی، دین-اسلام پڑھانے کا استاد تھا۔ وہ تھا بھی غیر-مسلم۔ وہ اپنی کتاب “دا-کولیکشن-اف-دا-قران” میں بہت لمبی اور گہری تحقیق اور بحث کے بعد یہ لکھتا ہے کہ جو قران، اج ہمارے ہاتھ میں ہے یہ وہی مصحف ہے جو نبی محمد کے ہاتھ میں تھا۔ برائے مہربانی قران کی کمپی-لیشن پر یہ ہمارہ صفحہ ضرور پڑھیں۔ شکریہ۔ یہ صفحہ پڑھنے کے بعد اپ کو پتہ چل جائے گا کہ یہ سنی امام کتنے بڑے جھوٹے ہیں اور یہ جعلی ڈاکٹر، زبیر نے اپنی کتاب مکالمہ میں کس بے-غیرتی کے ساتھ جھوٹ بولا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کذاب کو ہم بار بار جعلی ڈاکٹر کہہ رہے ہیں۔ ایسے کمینوں کے دل میں خوف-خدا ہے ہی نہیں۔ خدا اور اس کی کتاب کے یہ دشمن، ڈٹ کے جھوٹ بولتے ہیں اور اس جھوٹ پر اس لیے ڈٹے رہتے ہیں تاکہ دین میں وہ اپنی من-گھڑت سنت اور احادیث کی کتب کے لیے جگہ برقرار رکھ سکیں۔

سب لوگ جانتے ہیں کہ سنی فرقہ کی چھ کتب اور شیعہ کی چار کتب نبی کی وفات کے ۲۵۰ سال بعد شکست خوردہ پارسی ایرانی اماموں نے فورج کیں۔ ان کتب میں بہت سی ایسی روایات ہیں جو نبی کی اور قران کی توہین کرتی ہیں۔ اسی سنی فرقہ کی اپنی کتب میں لکھا ہے کہ نبی اور خلفاء کے دور میں احادیث پر پابندی تھی۔ اپ اس صفحہ پر ایسی تمام کتب کے حوالاجات پڑھ سکتے ہیں- اور سنت-رسول کے الفاظ پورے قران میں موجود ہی نہیں۔ یہ سنت-رسول کی بدعا ان سنی اور شیعہ مشرکین کی ايجاد ہے۔ ہم نے اس سنی اور شیعہ کی بنائی ہوئی جعلی سنت پر پورا صفحہ لکھا ہے جو اپ اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں

اپنی کتاب میں ڈاکٹر زبیر بار بار غامدی اور اس کے استاد امین اصلاحی پر تنقید کرتا نظر اتا ہے۔ ہم نے غامدی اور امین اصلاحی کو پورا پڑھا ہے اور ہماری رائے یہ ہے کہ امین-اصلاحی دوسرے جنوبی ایشیا کے جاہل مولویوں کی طرح کا صرف ایک اور جاہل پروٹو-ٹائپ مولوی تھا، اور غامدی، اپنے جاہل استاد کی اندھوں کی طرح پیروی کرتا ہے۔ البتہ ڈاکٹر زبیر نے غامدی اور اصلاحی کے من-گھڑت ڈاکٹرائن “تواتر عملی” اور ” ایسٹابلشڈ-ہسٹری” کو بے-بنیاد قرار دیا ہے اور اس نقطہ پر ڈاکٹر زبیر کا مؤقف درست ہے

پھر یہ جھوٹا مشرک جعلی ڈاکٹر اپنی کتاب کے صفحہ ۷۰۸ میں وہی پرانا ریڈی-میڈ رٹا-رٹایا جھوٹ دہراتا ہے جو شیعہ اور سنی مشرک ۱۲۰۰ سے دہرا رہے ہیں، اور وہ ان کا جھوٹ یہ ہے کہ رسول نے شروع میں تو احادیث لکھنے سے منع کیا تھا مگر بعد میں رسول نے احادیث لکھنے کی اجازت دے دی۔ اس بات کے لیے، ان سنی مشرکوں نے کسی نامعلوم فرضی شخص ابی-شاہ اور ابوہریرہ کے نام سے ایک الحاد روایت بھی گھڑ رکھی ہے۔ یہ، سنی فرقہ کا گھڑا ہو جھوٹ ہے۔ سچ یہ ہے کہ رسول اور چار خلفاء نے احادیث لکھنے کی کبھی بھی اجازت نہیں دی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ قران ٦:۱۱۴، ۵:۴۴ کے مطابق، دین میں صرف اور صرف الله جَلَّ جَلَالَهُ کی کتاب ہی فالو کی جائے۔ حتی کہ سنی فرقہ کی بیسیوں مشہور قدیم کتابوں میں لکھا ہے کہ رسول نے احادیث لکھنے کی اجازت نہیں دی، اور رسول کی موت کے بعد، خلیفہ ابوبکر نے بھی احادیث لکھنے سے اور احادیث کو لوگوں میں زبانی پھیلانے سے منع کر دیا اور کہا کہ دین کے سب معاملات قران کے مطابق حل کرو۔ خلیفہ عمر نے تو حدیث پھیلانے والوں کے خلاف گویا جنگ کی۔ خلیفہ عمر نے لوگوں کو حکم دیا کہ جس کسی کے پاس بھی کوئی حدیث کی تحریر موجود ہے وہ میرے حوالے کر دے۔ لوگوں نے حکم بجا لاتے ہوئے ایسی سب تحریریں خلیفہ عمر کے ہاں جمع کروا دیں اور سوچا کہ خلیفہ عمر کا مقصد شائد احادیث کی ماسڑ-کاپی تیار کرنے کا ہے۔ مگر خلیفہ عمر نے ان سب احادیث کو آگ میں جلا دیا اور لوگوں کو کہا کہ یہ احادیث، یہودیوں کی کتاب مشناہ تلمود کی طرح ہے جس نے یہود کو گمراہ کیا۔ کسی نے خلیفہ عمر کو بتایا کہ احادیث پر پابندی کے باوجود ابھی بھی تین صحابی لوگوں کو احادیث سناتے رہتے ہیں۔ خلیفہ عمر نے ان تین صحابیوں کو تاحیات قید کردیا۔ ان کی قید اسی وقت ختم ہوئی جب ایرانی ماجوسی فیروز لولو نے خلیفہ عمر کو شہید کردیا۔ خلیفہ علی نے بھی ایک خطبہ میں لوگوں کو کہا کہ تمام حدیث مٹا دو کیونکہ تم سے پہلی قومیں اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے اپنے ملاؤں رابیوں کی احادیث کی کتابوں کو فالو کرنا شروع کر دیا اور خدا کی کتاب کو بھول گئے۔ ہم خالی-خولی بات نہیں کرتے۔ اپ ان سب کتابوں کے متعلقہ صفحات کے تصویری حوالاجات ہمارے اس صفحہ پر پڑھ سکتے ہیں “حدیث اور سنت” کی صحیح تاريخ“۔ ابھی ہم اس جھوٹے دجال-الدجاجلہ جعلی ڈاکڑ زبیر سے پوچھتے ہیں کہ اگر رسول نے احادیث لکھنے کی اجازت دے دی تھی تو پھر چار خلفاء نے احادیث پر پابندی کیوں برقرار رکھی؟

مشرک سنی مفتی، ملاں، امام اور اس ڈاکٹر زبیر کی طرح کے سوڈو سکالر، مفصل اور مکمل قران سے راہنمائی حاصل کرنے کی بجائے، اپنے پرانے نہایت ہی جاہل اماموں کو اندھوں کی طرح فالو کرتے ہے۔ اور ان من-گھڑت احادیث کو فالو کرتے ہیں جن کے صحیح ہونے کی تصدیق نہ نبی نے کی، نہ چار خلفاء نے کی اور ذاتی طور پر نہ ہی کسی صحابی نے کی۔ کس نے کی؟ اس صبائی باطنی تحریک کے پارسی منافق بخاری نے کی، اور وہ بھی، نبی کی وفات کے ۲۵۰ سال بعد– جب ہم وہ کتب پڑھتے ہیں جو ابوحنیفہ کوفی زیدی کے نام سے منسوب ہیں تو یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ جو کچھ ان کتابوں میں لکھا ہے اگر وہ واقعی ابوحنیفہ کوفی زیدی کے الفاظ ہیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ ابوحنیفہ کوفی زیدی پرلے درجے کا ایک جاہل مولوی تھا۔ مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ باتیں غلط طور پر منافقین نے ابوحنیفہ کوفی زیدی کے نام سے منسوب کردی ہوں جیسے کہ سنی فرقہ نے لاکھوں روایات کو خاتم الأنبياء کے نام سے منسوب کر دیا ہے اور شیعہ نے الف-لیلی کی کہانیوں کو خلیفہ علی کے نام سے جوڑ دیا ہے۔ حالانکہ سنی، ان من-گھڑت احادیث کو فالو کرتے ہیں جن کے صحیح ہونے کی تصدیق نہ نبی نے کی، نہ چار خلفاء نے کی اور ذاتی طور پر نہ ہی کسی صحابی نے کی۔ مولوی زبیر لکھتا ہے کہ ابوحنیفہ کوفی زیدی مہدی کی خرافات، دجال کی خرافات اور نبی عیسی کے زندہ اسمان پر جانے اور دوبارہ واپس انے کی خرافات پر ایمان رکھتا تھا۔ مگر کچھ کتب جو ہم نے پڑھی ہیں ان کے مطابق جب ایک شخص نے ابوحنیفہ کوفی زیدی سے ایت ۴:۱۵۸ کے لفظ رفعہ کی تفسیر پوچھی تو جواب میں ابوحنیفہ کوفی زیدی نے اس شخص کو کسی من-گھڑت حدیث کا حوالہ دینے کی بجائے قران کی ایت ۳۵:۱۰ کا حوالہ دیا کیونکہ ایت ۳۵:۱۰ میں دو لفظ ملتے ہیں يَرْفَعُهُ اور يَصْعَدُ۔ لفظ يَصْعَدُ کا معانی کسی چیز کو فزیکلی اوپر اٹھانا ہے مگر لفظ يَرْفَعُهُ کے معانی درجہ میں بلندی اور روحانی بلندی ہے۔ یاد رہے کہ ایت ۳۵:۱۰ کا لفظ يَرْفَعُهُ، ایت ۴:۱۵۸ کے لفظ رَّفَعَهُ کی ہی ایک اور کنوٹیشن ہے۔ اس سے تو یہ معلوم ہوا کہ ابوحنیفہ کوفی زیدی عیسی کے زندہ اسمان جانے پر یقین نہیں رکھتا تھا بلکہ ایت ۴:۱۵۸ کے لفظ رَّفَعَهُ کا مطلب ابوحنیفہ کوفی زیدی کے نزدیک درجہ میں بلندی تھا۔ مکمل حوالہ اسی صفحہ میں دیا ہوا ہے ایک پکچر میں۔۔ قران میں متعدد ایات میں لفظ رفعہ کا معانی درجہ میں بلندی ہے، جسم کے ساتھ زندہ یا مردہ اسمان پر جانا نہیں۔ سنی فرقہ کی اپنی کتاب ص-مسلم میں لکھا ہے کہ جو خدا کے واسطے اانسانوں سے نرمی کے ساتھ پیش اتا ہے خدا اس کا درجہ بلند یعنی رفعہ کر دیتا ہے۔ اس کے جسم کو اسمان پر نہیں لے جاتا۔ ایت ۲۰:۵۵ میں قران بتاتا ہے کہ تم مٹی سے بنے ہو، اور واپس مٹی میں ہی جاؤ گے۔ ص-مسلم کے الفاظ یہ ہیں وما تواضع أحد لله إلا رفعه الله – ‏رواه مسلم‏‏‏. قران میں بلکل واضع ہے کہ نبی عیسی صلیب پر نہیں مرے۔ ایت ۵:۱۱۰ بتاتی ہے کہ وہ ۱۰۰ سال سے اوپر زندہ رہے۔ ایات ۳:۱۴۴، ۵:۱۱۷، ۳:۵۵ کے مطابق نبی عیسی کی طبعی موت ہو چکی ہے اور مردے واپس نہیں اتے۔ ہہی سچ ہے مگر شیعہ اور سنی مشرک، قران کو سمجھنے کی بجائے جھوٹے نبی مرزا غلام احمد قادیانی کے اوپر چڑھ دوڑتے ہیں۔ اپ عیسی کے صلیب کے مضمون پر یہ صفحہ ضرور پڑھیں۔

قران مفصل ہے مکمل ہے ۱٦:۸۹، ٦:۱۱۴ مگر قران میں شیعہ کے مامے مہدی کا، اور سنیوں کا چاچے دجال کا کوئی ذکر نہیں۔ بنیادی طور پر مہدی کی خرافات ایرانی پارسیوں کی کہانی ہے۔ جب ساتویں صدی عیسوی میں مسلمانوں سے شکست کھانے کے بعد ایرانی-پارسی اسلام میں داخل ہوئے تو انہوں نے اپنی مہدی کی خرافات مسلمانوں میں پھیلا دی۔ پھر یہ خرافات من-گھڑت کتب احاديث میں گھس گئی۔ بعد میں سنی فرقہ جس کی بنیاد دسویں صدی میں ایرانی پارسیوں نے رکھی، اس مہدی کی کہانی کو بھی قبول کر لیا۔ اور فراڈئیے مرزا قادیانی نے یہ دعوی کر دیا کہ وہ ہی مہدی ہے اور مسیح-ماعود یعنی اسمان سے ٹپکا ہوا عیسی بھی ہے اور نبی بھی ہے۔ ہم نے اس صفحہ پر مرزا قادیانی کے ان تینوں دعوؤں کو دلیل کے ساتھ غلط ثابت کیا ہے۔ سرسید، ابو-الکلام آزاد، اور علامہ اقبال جیسے بڑے دماغ بھی مہدی، دجال، اور عیسی کے اسمان آنے جانے کے قصے کو محض خرافات سمجھتے تھے۔ دجال یعنی اینٹی-کرائسٹ کی کہانی عیسائیوں کی ایجاد ہے جو بعد میں من-گھڑت کتب احاديث میں بھی گھس گئی۔ گو کہ امام شافعی اور مالک، شیطان ابلیس کے مرید تھے، پڑھیے ثبوت اس لنک پر، مگر پھر بھی اس جعلی ڈاکٹر زبیر نے یہ بھی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ امام ملک بھی عیسی کے اسمان پر جانے اور واپس انے پر يقین رکھتے تھے مگر سچ یہ ہے کہ امام مالک کے الفاظ ہیں “مات عیسی” یعنی نبی عیسی مر چکے ہیں۔ کتب کے حوالے اسی صفحہ میں ديئے گئے ہیں۔ کیا امام مالک، جھوٹے نبی مرزا قایادیانی کا مرید تھا؟ ہم نے یہ سوال اس لیے پوچھا ہے کیونکہ قران کو ایمانداری سے سمجھنے کی بجائے، سنی اور شیعہ، اپنی جہالت کا غصہ جھوٹے نبی مرزا قایادیانی پر نکال دیتے ہیں۔ جو ادمی بھی ان جاہلوں کو قران کا سچ بتائے، اس پر فورا، یہ جاہل، احمدی کا یا قادیانی کا لیبل لگا دیتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ سنی، شیعہ اور مرزا قادیانی کا ایک ہی مشترکا مرشد ہے اور وہ ہے ابلیس جس نے انہیں غلط ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔۔

پھر یہ جعلی ڈاکٹر اپنی گپ-شپ کتاب “مکالمہ” میں لکھتا ہے کہ یہ شیعہ کا پراپیگنڈا ہے کہ ابوحنیفہ کوفی، شیعہ امام جعفرصادق کے شاگرد تھے۔ مگر شاہ-عبدالعزیز دہلوی تو شیعہ کے سخت خلاف تھے۔ شاہ-عبدالعزیز دہلوی نے تحفہ اتناشریہ میں لکھا ہے کہ ابوحنیفہ نہ صرف امام جعفرصادق کے شاگرد تھے بلکہ وہ زیدی شیعہ تھے۔ اور امام مالک بھی حعفرصادق کے شاگرد تھے۔ ابن-ندیم فہرست میں لکھتا ہے کہ اسلامی تاریخ کا سب سے بڑا فرآڈیا-مشرک امام شافی کٹڑ شیعہ تھا۔ ملا علی قاری کا بیٹا محسن اپنی کتاب “مجاہدالمنافق ابن حنبل” لکھتا ہے کہ ظاہری طور پر ابن حنبل اسلام کا رکھوالا لگتا تھا مگر دراصل وہ ایک کٹڑ صبائی شیعہ تھا۔ پہلے خلفاء-راشد، تین تھے، ابن-حنبل نے حضرت علی کو بھی خلفاء-راشدین میں شامل کر لیا۔ مصری مولوی ابن-حجر نے فتح-الباری میں لکھا ہے اور بدر-الدین عینی نے اپنی کتاب عمدہ قاری میں لکھا ہے کہ امام مالک اور فراڈیا امام شافئی اپنی بیویوں سے اس سوراخ سے سیکس کرتے تھے جہاں سے ٹٹی باہر اتی ہے۔ یعنی وہ دونوں قوم لوط کے برے لوگوں کی طرح تھے جو دبر سے سیکس کیا کرتے تھے۔ پارسی ابوداد لکھتا ہے کہ رسول نے کہا کہ جو مرد، بیوی سے اس کی دبر سے سیکس کرے، اس پر خدا کی لعنت ہو۔ تو ابو داؤد کے مطابق دونوں شافئی اور مالک لعنتی ٹھہرے۔ اور الکافی کی ایک رویت سے پتہ چلتا ہے کہ جعفر صادق پرلے درجے کا جاہل انسان تھا۔ سچ یہ ہے کہ دونوں مشرک فرقے سنی اور شیعہ ایک ہی کھوٹے سکے کے دو رخ ہیں، قران ۳:۱۰۳، ۳:۱۰۵، ٦:۱۵۹ کے مطابق یہ دونوں مشرک فرقے دین-اسلام سے خارج ہیں اور ۳:۱۰۵ کے مطابق، جہنم ان دونوں فرقوں کا انتظار کر رہی ہے۔ قران فرقوں کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ الله جَلَّ جَلَالَهُ نے سب نبیوں کے سچے پیروکاروں کا نام صرف مسلم رکھا ہے ۲۲:۷۸؛ سنی اور شیعہ نہی؛ حنفی اور حنبلی نہیں

اس جعلی مشرک ڈاکٹر کی یہ کتاب “فکر-غامدی” اٹھ ابواب پر مشتمل ہے

اول– دین کے منتقل اورحجت ہونے کا بنیادی ذریعہ اجماع یا خبر واحد؟
دوم– غامدی کا تصور قران
سوم– غامدی کا اصول تفسیر
چہارم– غامدی کا تصور سنت
پنجم– غامدی کا تصور فطرت
ششم– غامدی کا تصور خیروشر اور حلال و حرام
ہفتم– غامدی کا تصور کتاب
ہشتم– مکاتیب

گو کہ ہمارے اسی صفحہ کے اوپر والے حصہ میں ہم نے جو کچھ لکھا ہے وہ کسی نہ کسی صورت میں ان اٹھوں ابواب سے بھی متعلقہ ہے مگر پھر بھی، ہم باری باری ان اٹھوں ابواب پر مزید مدلل راشنل گفتگو کریں گے

اول- دین کے منتقل اورحجت ہونے کا بنیادی ذریعہ اجماع یا خبر واحد؟
اس باب میں اسی جعلی ڈاکٹر نے جو خبر واحد اور اجماع پر لکھا ہے خالص بکواس ہے۔ قران کی متعدد ایات یہ واضع کرتی ہے کہ رسول کے ذمے صرف قران کو لوگوں تک پہنچانا تھا۔ يہی وجہ ہے کہ رسول اور تمام صحابہ نے پیچھے صرف لکھا ہوا قران چھوڑا۔ کوئی بھی سنت اور احادیث کی تحریر نہیں چھوڑی۔ اور الله جَلَّ جَلَالَهُ نے قران کی حفاظت کا خود ذمہ لے رکھا ہے۔ سنت اور احادیث کی تمام کتب سنی اور شیعہ کی بدعا ہیں۔ ان فرقہ پرستوں کے اجماع اور متواتر کی دین میں کوئی حثیت نہیں ہے۔ قران نازل ہونے کے بعد قران ہی اسلام ہے اور جو مفصل اور مکمل قران ٦:۱۱۴، ۱٦:۸۹ میں نہیں ہے وہ اسلام کا حصہ نہیں ہے۔

دوم- غامدی کا تصور قران
اس باب میں جو تنقید اس جعلی ڈاکٹر زبیر نے غامدی پر کی ہے اس کا کوئی تک نہیں بنتا۔ اس ٹاپک پر غامدی کا مؤفف درست ہے۔ قران کے پہلے حافظ رسول تھے۔ پھر صحابہ بھی حافظ تھے پھر لاکھوں تابیعین بھی حافظ تھے اور اج پچاس لاکھ سے زیادہ حافظ ہیں جو اسی قران کی تلاوت کرتے ہیں جس کی تلاوت رسول نے کی تھی۔ قران کے متعلق باقی جو کہانیاں ہیں وہ عجمیوں نے گھڑی ہیں اور سنی اور شیعہ کی سب کتب روایات، کتب خرافات ہے

سوم- غامدی کا اصول تفسیر
اس باب میں اس جعلی ڈاکٹر اور غامدی دونوں کا مؤقف غلط ہے۔ نقطہ یہ ہے کہ جب رسول نے قران کی تفسیر کی کوئی کتاب پیچھے نہیں چھوڑی، جب چار خلفاء نے قران کی تفسیر کی کوئی کتاب پیچھے نہیں چھوڑی، اور جب تمام صحابہ نے قران کی تفسیر کی کوئی کتاب پیچھے نہیں چھوڑی، تو پھر تم کون ہوتے ہو قران کی تفسیر لکھنے والے؟ کیا یہ جعلی ڈاکٹر، اور غامدی قران کو چار خلفاء سے بہتر سمجھتے ہیں؟ اب سوال یہ ہے کہ آگر قران کی تفسیر کی کتاب ضروری ہوتی تو پھر رسول، خلفاء اور صحابہ نے ہمارے لیے کوئی تفسیر کی کتاب کیوں نہ لکھوائی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کو پتہ تھا کہ چونکہ قران اپنی تفسیر خود اپنی تصریف سے کرتا ہے لہذا قران کو کسی تفسیر کی کتاب کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ قران کا مصنف الله جَلَّ جَلَالَهُ ہے اور وہی انسان، قران کی تفسیر لکھنے کے قابل ہو سکتا ہے جس کا علم یا تو قران کے مصنف سے زیادہ ہو یہ قران کے مصنف کے برابر ہو۔ مگر ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لیے، قران کی تفسیر صرف قران کا مصنف ہی کر سکتا ہے اور وہ اس نے کی ہے تصریف کے ذریعے۔ قران کی ایات ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں اور یہی صحیح تفسیر ہے

غامدی کا تصور سنت
اس ٹاپک پر اس جعلی ڈاکٹر زبیر کا مؤقف اور غامدی کا مؤقف بھی نہ صرف غلط ہیں بلکہ ایسا غلط مؤقف رکھنے والا بندہ، درحقیقت مشرک ہے جو جعلی-سنت کے ذریعے یہ کہہ کر فانی رسول کو خدا کا پارٹنر بنا دیتا ہے کہ دین کی بنیاد قران اور سنت پر ہے۔ قران کے ساتھ جعلی سنت کو جوڑ دینا خدا کے ساتھ شرک کرنا ہے۔ ہم اس جعلی سنت کے ٹاپک پر پہلے ہی اس صفحہ کے اوپر والے حصہ میں بحث کر چکے ہیں اور مذید بحث اپ اس لنک پر بھی پڑھ سکتے ہیں۔ المختصر، پورے قران میں “سنت-رسول” کی اصطلاح موجود ہی نہیں اور نہ ہی رسول اور صحابہ نے پیچھے کوئی حدیث اور سنت کی تحریر چھوڑی۔ سنت اور احادیث کی سب کتب، سنی اور شیعہ فرقوں کی بدعا ہے

پنجم- غامدی کا تصور فطرت
اس باب میں اس ڈاکٹر زبیر نے غامدی کے اپنے ہی بنائے ہوئے دین-فطرت پر تنقید کی ہے اور کسی حد تک اس کی تنقید میں کچھ وزن بھی ہے۔ جہاں تک غامدی کا تعلق ہے وہ ایک سوڈو-سکالر ہے جس کی باتوں میں ادھا سچ ہوتا ہے باقی بے-تکی بکواس جس کا نہ سر ہوتا ہے نہ پاؤں مگر یہ ادمی نہایت ضدی ہے اور ایک غلط بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے ایک ہزار جھوٹ مذید بولتا ہے۔ اس باب میں، زبیر نے فطرت کے معاملہ میں، زیادہ تر، حرام اور ہلال پر بات کی ہے مگر سچ یہ ہے کہ زبیر اور غامدی جیسے ملاؤں کو قران کی صحیح سمجھ نہیں ہے نہ ہی ان کے سنی اور شیعہ امام ۱۲۰۰ سال سے قران کو سمجھ پائے ہیں کیونکہ قران کو صرف اس کی اپنی تصریف کے ذریعے سمجھنے کی بجائے یہ فرقہ پرست، قران کی ایات کے اوپر اپنی جعلی احادیث مسلط کر کے قران کے ترجمہ کی تحریف کر دیتے ہیں۔ حرام اور ہلال کے مسائل پر یہ زبیر اور غامدی دونوں پرلے درجے کے جاہل ہیں۔ ان کو اس کی کچھ سمجھ نہیں۔ یہ جاہل غامدی ایت ۵:۱ کے بَهِيمَةُ ٱلْأَنْعَـٰمِ کو چرندے کہتا ہے جو کہ سو فیصد غلط ہے، اور اس باب میں اس ابوجہل جعلی ڈاکٹر زبیر نے خنزیر کو بَهِيمَةُ ٱلْأَنْعَـٰمِ میں شامل کر ڈالا ہے۔ ۱۲۰۰ سال سے سنی اور شیعہ امام بَهِيمَةُ ٱلْأَنْعَـٰمِ کا مطلب نہیں سمجھ سکے اور نہ ہی زبیر اور غامدی کو پتہ ہے کہ بَهِيمَةُ ٱلْأَنْعَـٰمِ کے معانی کیا ہیں۔ یہ جاننے کے لیے کہ بَهِيمَةُ ٱلْأَنْعَـٰمِ کا کیا معنی ہے اس لنک پر ہمارہ صفحہ پڑھیں۔

دین کا معنی، حیوانی فطرت پر چلنا نہیں ہے بلکہ فطرت کو خدائی-قوانین کے مطابق بنانا ہے۔ فطرت میں تو جو ایک طاقتور چیز ہے وہ زنا کی خواہش ہے مگر قران نے ہمیں اس سےمنع کیا ہے۔ اس دنیا کے اکثر لوگ خنزیر کھاتے ہیں مگر قران کے مطابق خنزیر، کھوتا، گھوڑا، ہاتھی، گینڈا، زیبرا، خرگوش وغیرہ حرام ہیں۔ اس باب میں، زبیر نے اسلام کے سب سے بڑے دشمن شافئی کی یہ منترا دھرائی ہے کہ دین کی بنیاد قران، سنت، اجماع اور قیاس پر ہے۔ یہ منترا مشرک شیعہ شافئی کی بنائی ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دین کی بنیاد صرف قران ہے۔ سنت، اجماع اور قیاس مشرک شیعہ شافئی کی من-گھڑت بدعا ہیں۔ ابن-ندیم فہرست میں لکھتا ہے کہ شافئی کٹر شیعہ تھا۔ ابن-حجر فتح-الباری میں اور بدرالدین عینی عمدہ قاری میں لکھتا ہے کہ امام مالک اور شافئی دونوں اپنی بیویوں کی گانڈ مارتے تھے یعنی دبر سے سیکس کرتے تھے لوطیوں کی طرح۔ ابو داؤد لکھتا ہے جس نے بیوی سے دبر سے سیکس کی اس پر خدا کی لعنت ہے تو اس طرح یہ زبیر کا ماماں شافئی ایک لعنتی ٹھہرا۔

To be continued soon ……سچے مسلمان کو بھلا ان جاہل ملاؤں، سوڈو-سکالروں اور لونڈے لپاڑے جاہل فرقہ پرست اماموں اور سنت، حدیث، سیرت، تفسیر، اسباب-نزول کی جعلی کتب کے پيچھے بھاگ کر محدود سی زندگی کو برباد کرنے کی ضروت ہی کیا ہے۔ الله جَلَّ جَلَالَهُ نے قران-مجید اسان بنایا ہے ۵۴:۴۰۔ بنیادی عربی سیکھو؛ پھر قران کو صرف قران کی اپنی تصریف سے ہی سمجھو؛ اور پھر ایمانداری اور خلوص سے قران-الحکیم کے سب قوانین اور اخلاقی ضوابط کو فالو کرو؛ تو یہی خالص اسلام ہے۔ اور قران-الحکیم انشاءاللہ اپ کو جنت میں لے جائے گا ۱۷:۹

اس پرانے ویڈیو میں جو مثال غامدی صاحب نے روزوں کے متعلق دی ہے بالکل وہ کسی ایت کے منسوخ ہونے کا ثبوت نہیں ہے۔ اس وقت کے، اسلام کے ٹاپ پروفیسرز جیسے کہ ڈاکٹر پروفیسر یاسر عودہ ہے نے بھی لکھا ہے کہ اس نے پورے حدیث لٹریچر کی تحقیق کی ہے اور اس کو ایک حدیث بھی صحیح نہیں ملی جو قران کی کسی ایت کے منسوخ ہونے کی بات کرتی ہو۔ یہ ساری کارستانی ان جاہل سنی اماموں کی ہے جو صحابہ کے بہت بعد میں وارد ہوئے۔ ایت ۲:۱۰٦ کو اگر ایت ۲:۱۰۵ کے ساتھ ملا کر سمجھا جائے تو بات صاف ہو جاتی ہے کہ ان ایات میں، پرانی کتابوں کی شریعت کی منسوخی کی بات ہو رہی ہے۔ غامدی صاحب کی پرابلم یہ ہے کہ وہ اپنے جاہل استادوں امین اصلاحی اور فراہی کو پغمبر سمجھ کر ان کی جہالت کو بھی اندھوں کی طرح فالو کرتے ہیں۔ چونکہ جاہل امین اصلاحی نے اپنی کتاب تدبر-قران میں لکھ دیا ہے کہ قران اپنی ایات منسوخ کرتا ہے تو اصلاحی کے یہ توہین-قران کے الفاظ، غامدی صاحب کے لیے حدیث بن گئے ہیں۔ حالانکہ، گو اصلاحی اور فراہی دوسرے جنوبی ایشیا کے ملاؤں سے قدرے بہتر تھے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دونوں فرشتے تھے اور انہوں نے غلطیاں نہیں کیں۔ قران تو بتاتا ہے بحثیت انسان، نبیوں سے بھی غلطیاں ہوئیں ۴۸:۲

ایک منطقی اور راشنل نقطہ یہ ہے کہ اگر قران-الحکیم کی کچھ ایات منسوخ ہوتیں تو نبی، ان ایات کی فکس تعداد صحابہ کو بتاتے۔ مگر کوئی سنی انفیڈل امام کہتا ہے کہ قران کی ۲۱۳ ایات منسوخ ہیں تو کوئی کہتا ہے کہ صرف پانچ منسوخ ہیں۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ ان جاہل اماموں نے قران کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے۔ جعفر نحاس لکھتا ہے کہ ۱۳۳ ایات منسوخ ہیں۔ مصری مولوی سیوطی لکھتا ہے کہ ۲۲ منسوخ ہیں۔ ابن الجوازی لکھتا ہے کہ ۲۴۷ منسوخ ہیں۔ دجال ابن سلامہ لکھتا ہے کہ ۲۱۳ ایات منسوخ ہیں۔ یہ لسٹ لمبی ہے۔ اور شاہ ولی-اللہ دہلوی لکھتا ہے ۵ ایات منسوخ ہیں۔ ایک انسان جس کا دماغ دس فیصد بھی صحیح کام کر رہا ہو ان اعداد-و-شمار سے سمجھ سکتا ہے۔ یہ ناسخ-منسوخ کی خرافات جاہل سنی اماموں کی پیداوار ہے۔ مگر یہ سچ غامدی صاحب کے دماغ میں گھسنے سے اس لیے قاصر ہے کیونکہ مسٹر غامدی کو ہر صورت میں اصلاحی اور فراحی کو فالو کرنا ہے۔

غامدی صاحب قران کو سمجھنے کی بجاۓ جاہل امین اصلاحی اور جاہل فراہی کو فرشتہ ثابت کرنے میں جٹے رہتے ہیں۔
مسٹر @azhariqbal1390
اس روزوں کی ایت کو یہاں پوسٹ کرو جو غامدی کے مطابق منسوخ ہے اور وہ ایت بھی پوسٹ کرو جو غامدی کے قریب ناسخ ہے۔ پھر میں اپ کو راشنل جواب سے بتاؤں گا کہ غامدی نے سفید جھوٹ بولا ہے۔ یہ ادمی قران کو نہیں سمجھتا، بس اپنی دکانداری چلا رہا ہے۔ اس کا مقصد قران کو سمجھنا ہے ہی نہیں بلکہ ماضی کے دو جاہل ملاؤں اصلاحی اور فراہی کو فرشتے ثابت کرنا ہے۔ پھر یہ بے-عقل ادمی کہتا ہے کہ عیسی کے مرنے کے بعد فرشتے عیسی کی لاش اٹھا کر اسمان پر لے گیے اور وہ لاش ۲۰۰۰ سال سے فریزر میں پڑی ہے۔ ان باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس ادمی کے پاس نہ کامن-سینس ہے نہ ہی قران کی سجھ، نہ ہی میٹافزکس کی سمجھ۔– اس بندے نے ایت ۲۰:۵۵ نہیں پڑھی جس میں الله جَلَّ جَلَالَهُ فرماتے ہیں کہ تم کو مٹی سے بنایا ہے اور تم مٹی میں ہی واپس جاؤ گے، اسمان پر نہیں۔ بلکل ایسے ہی تورت جنیسز ۳:۱۹ میں لکھا۔ ۲۰:۵۵ مِنْهَا خَلَقْنَـٰكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ۔
موت کا ایک سٹینڈرڈ قانون ہے قُلْ يَتَوَفَّىٰكُم مَّلَكُ ٱلْمَوْتِ ٱلَّذِى وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ ۳۲:۱۱ کہ موت کے بعد مٹی کا جسم واپس مٹی میں جاتا ہے اور جو روحانی انسان جو ماں کے رحم میں بھیجا گیا تھا زندگی کے امتحان ٦۷:۲ کے بعد مر جاتا ہے اور موت کے بعد اسی روح کو، الله جَلَّ جَلَالَهُ کی طرف اٹھا لیا جاتا ہے ٦:۹۴، ۳۲:۱۱، ۳:۵۵۔ زندہ یا مردہ مٹی کا جسم الله جَلَّ جَلَالَهُ کی طرف نہ تو جاتا ہے نہ ہی جا سکتا ہے کیونکہ مٹی کا جسم الله جَلَّ جَلَالَهُ کے روحانی-ریلم میں داخل ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ دنیا اور ہے اور یہ دنیا اور۔ اس مٹی کے جسم کی انکھ، الله جَلَّ جَلَالَهُ کو نہیں دیکھ سکتی ۷:۱۴۳

وَلَمَّا جَآءَ مُوسَىٰ لِمِيقَـٰتِنَا وَكَلَّمَهُۥ رَبُّهُۥ قَالَ رَبِّ أَرِنِىٓ أَنظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَن تَرَىٰنِى وَلَـٰكِنِ ٱنظُرْ إِلَى ٱلْجَبَلِ فَإِنِ ٱسْتَقَرَّ مَكَانَهُۥ فَسَوْفَ تَرَىٰنِى فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُۥ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُۥ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًا فَلَمَّآ أَفَاقَ قَالَ سُبْحَـٰنَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا۠ أَوَّلُ ٱلْمُؤْمِنِينَ

الله جَلَّ جَلَالَهُ ایت ۷:۱۴۳ میں فرماتے ہیں۔

اور جب موسیٰ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر (کوہ طور) پر پہنچے اور ان کے پروردگار نے ان سے کلام کیا تو کہنے لگے کہ اے پروردگار مجھے (جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار (بھی) دیکھوں۔ پروردگار نے کہا کہ تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے۔ ہاں پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو اگر یہ اپنی جگہ قائم رہا تو تم مجھے دیکھ سکو گے۔ جب ان کا پروردگار پہاڑ پر نمودار ہوا تو (تجلی انوارِ ربانی) نے اس کو ریزہ ریزہ کردیا اور موسیٰ بےہوش ہو کر گر پڑے۔ جب ہوش میں آئے تو کہنے لگے کہ تیری ذات پاک ہے اور میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور جو ایمان لانے والے ہیں ان میں سب سے اولcememttasreefsindhiAnswering an Impostor “Sam Shamoun”

You Evangelists have corrupted your books and your minds too, but in past 1400 years, Sectarian Shia and Sunni Mullahs and Imams failed to tamper Original Arabic Text of Noble Quran because being the Final Book of God, God has protected its original Arabic Text (Quran 15:9, 17:88, 41:42). But Mullahs tamper translation of Quran in order to reconcile stories of their fabricated hadiths with Quran.

Quran makes clear; and Gospel of John 20:11…20:16 and Gospel of Luke 24:37…24:40 also make clear that Jesus was NOT KILLED on the Cross; that means: he was NOT CRUCIFIEFD.

But Quran tells in 5:110 (Kahlan), that later Jesus lived over 100 years. Verse 5:117 tells that he died naturally, and dead never come back. This is what Quran has said. According to ancient Arabic literature, age of Kahlan is that very old age when human skin starts to putrefy. 

In over 25 verses of Quran, word WAFAT is used for natural death. Same word WAFAT is used in Quran 10:46 for the natural death of Prophet Mohammad; and same word WAFAT is used in 3:55, 5:117 for the Natural death of Prophet Isa (Jesus). This makes clear that though Jesus did not die on the Cross but he died naturally when his age was over 100 years >> 120 years.

But when Mullahs translate verse 5:117; instead of translating word WAFAT as death of Jesus, they switch their Car into different gear, and now, they translate word WAFAT of 3:55, 5:117 as “TO TAKE JESUS ALIVE TO HEAVENS”. This is 100% tampering. Sectarian Mullahs’ brains are hijacked by Satan Iblis. They have been committing this Crime of Tampering for centuries ONLY in order to reconcile stories of their fabricated hadith with Quran. These Criminals of Superlative-degree SUPERIMPOSE on Quran, stories of their fabricated hadiths and concocted Tafsir, and in this way, they change the meaning of verses. No one has harmed Islam and Muslims more than these freak Mullahs.

Quran 39:42
ٱللَّهُ يَتَوَفَّى ٱلْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَٱلَّتِى لَمْ تَمُتْ فِى مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ ٱلَّتِى قَضَىٰ عَلَيْهَا ٱلْمَوْتَ وَيُرْسِلُ ٱلْأُخْرَىٰٓ إِلَىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّى إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَـَٔايَـٰتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ

This verse 39:42 is telling us that during sleep, God takes Soul of Person, and Soul is not returned to those bodies which are decreed for death, but Souls of others who will still live, are returned to body.

Law of death is: when a Person dies, the Original Person “Soul/Spirit” is raised to God, and body which is made of Dust returns to Dust (Quran 20:55). It never goes to Heaven.

Now, what this verse has to do with Jesus? Nothing. But Mullahs in one way or an other way want to follow Fiction of Ascension and Return of Jesus.

In verse 39:42, when Soul of sleeping person is taken by God; then man sleeps usually 6 to 8 hours, and at morning, his soul is returned to his body. Is Jesus sleeping in any five star hotel in any remote part of Sky from 2000 years? No. He is dead, and his grave exists in RozaBal. We know that Mirza G A Qadiani was a false Prophet but all historical evidence shows, that in grave of Rozabal no one else is buried but Jesus. 

Do you even know that Fable of Ascension and Return of Jesus never existed in old copies of your Four Gospels? This fable was blended in Gospels by Church, much later in order to impress new converts that Pauline-Christianity is a Supernatural Dogma. And also, Quran never supports fable of Ascension and Return of Jesus, but Mullahs tamper translation of relevant verses.

Correct translation of 5:116-117 is done by Dr. Mohammad Asad PhD as under (in these verses, natural death of Jesus is mentioned; not death on Cross 4:157). All verbs in following verses are in past tense which confirms, that after the natural death Jesus in Quran 5:117, Jesus’ soul was raised to God; and at that time, following conversation between God and Jesus was taken place, but there are some nasty Pseudo Scholars, who say that: that conversation will be held on the day of Judgment but we do not see any word of day of Judgement in verses 5:116-117. God is always with man 57:4. God is closer to person than his neck-vein 50:16 but human eye cannot see God during this earthy life, but after death; Soul/Spirit can see everything even across a 100 meter thick cemented wall. Also read Quran 32:11, and 6:94. In following verses, we have made those verbs “Bold” which are in past tense. 

Quran 5:116-117 AND LO! God said: O Jesus, son of Mary! Didst thou say unto men, `Worship me and my mother as deities beside God’?’ [Jesus] answered: ‘Limitless art Thou in Thy glory! It would not have been possible for me to say what I had no right to [say]! Had I said this, Thou wouldst indeed have known it! Thou knowest all that is within myself, whereas I know not what is in Thy Self. Verily, it is Thou alone who fully knowest all the things that are beyond the reach of a created being’s perception. (Asad). 

Nothing did I tell them beyond what Thou didst bid me [to say]: `Worship God, [who is] my Sustainer as well as your Sustainer.’ And I bore witness to what they did as long as I dwelt in their midst; but since Thou hast caused me to die, Thou alone hast been their keeper: for Thou art witness unto everything. (Asad) See also 3:5516_116

 

In order to read part-02 of this page, please click here – thanks

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر کی کچھ خرافات پر ہمارہ تنقیدی لیکن منصفانہ جائزہ

Gallery

Leave a Reply but Be ethical please & be specific & logical