اپنی کتاب کے باب “حجیت حدیث اور انکار حدیث” کے اغاز میں یہ مشرک ڈاکٹر مولوی زبیر لکھتا ہے کہ دین کے دو بنیادی مصادر ہیں قران اور سنت۔ یہی کفر ۱۲۰۰ سال سے سنی امام بک رہے ہیں اور اسی شرک اور کفر کا پرچار سوڈو سکالر غامدی بھی کرتا رہتا ہے۔ مشرک شیعہ کہتے ہیں کہ دین کے مصادر قران اور اہل بیت ہیں۔ مشرک ڈاکٹر مولوی زبیر ، مشرک غامدی اور تمام مشرک سنی اور شیعہ ملاؤں کے اس دعوی کی نہ کوئی منطق ہے نہ کوئی دلیل۔ قران کی ایت ٦:۱۱۴ کہ مندرجہ ذیل الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ دین کا مصدر صرف اور صرف قران ہے أَفَغَيْرَ ٱللَّهِ أَبْتَغِى حَكَمًا وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ إِلَيْكُمُ ٱلْكِتَـٰبَ مُفَصَّلًا۔ یہ ایت یہ نہیں کہہ رہی کہ دین کا بنیادی مصدر قران ہے بلکہ یہ ایت صاف کہہ رہی ہے کہ دین کا مصدر ماخذ صرف اور صرف قران ہے۔ مندرجہ ذیل ایات یہ نقطہ مزید واضع کرتی ہیں۔

5:44-48, 12:106, 42:10, 42:10, 6:114, 6:19, 10:15, 39:13, 50:45, 16:116, 10:59-60, 7:32, 7:2-3, 11:18, 66:1, 28:56, 72:21, 2:272, 3:80, 18:110, 29:18, 5:92, 5:99, 42:48, 3:20, 2:213, 16:64, 24:54, 36:17, 13:40, 16:35, 16:82, 64:12, 12:111, 16:89, 17:12, 25:30, 25:33, 29:51, 45:6, 46:9, 28:85, 42:15, 2:159, 7:157, 47:2

قران کی ایت ۵:۴۴ کے مطابق جو لوگ دین کا مصدر، الله جَلَّ جَلَالَهُ کی کتاب کے علاوہ کسی اور کتاب کو بناتے ہیں وہ کافر ہیں وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْكَـٰفِرُونَ۔ لہذا ایات ٦:۱۱۴ اور ۵:۴۴ کے مطابق ہر وہ بندہ کافر مشرک ہے جو قران کے ساتھ سنت اور احادیث کی من-گھڑت کتب کو شریک ٹھہراتا ہے اور قران کے ساتھ ملاؤں کی بنائی ہوئی کسی اور کتاب کو شریک کرنا، الله جَلَّ جَلَالَهُ کے ساتھ شرک کرنا ہے۔ اسی لیے ہم بار بار لکھتے ہیں کہ سنی اور شیعہ، مشرکوں کے دو گروہ ہیں۔

قران میں لکھا ہے کہ جو انسان ایک ایت کا بھی انکار کرتا ہے یا کسی ایت کے کسی حصے کا بھی انکار کرتا ہے تو وہ کافر ہے۔ سنی اور شیعہ ان ایات کا عملی طور پر انکار کرتے ہیں جو ایات فرقہ-پرستی سے منع کرتی ہیں۔ سنی، ایات ۱۵:۹، ۱۷:۸۸، ۴۱:۴۲ کا بھی عملی طور پر انکار کرتے ہیں کیونکہ ان کی بکری قران کی ایات کھا گئی ہے۔ سنی اور شیعہ ایت ۱٦:۸۹ کا بھی انکار کرتے ہیں۔ ان مشرکوں نے قران کے خلاف ناسخ-منسوخ کی خرافات بھی گھڑ رکھی ہے۔ ان مشرکین کا ایک امام لکھتا ہے کہ قران کی ۲۴۷ ایات منسوخ ہیں اور ایک اور امام لکھتا ہے کہ قران کی ۲۲ ایات منسوخ ہیں اور ایک اور مشرک امام لکھتا ہے کہ قران کی ۵ ایات منسوخ ہیں۔ یہ ابلیس کے مرید،۱۲۰۰ سال سے کیسے اللہ تعالی کی کتاب کا مذاق اڑا رہے ہیں وَمَا نُرْسِلُ ٱلْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَيُجَـٰدِلُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ بِٱلْبَـٰطِلِ لِيُدْحِضُوا۟ بِهِ ٱلْحَقَّ وَٱتَّخَذُوٓا۟ ءَايَـٰتِى وَمَآ أُنذِرُوا۟ هُزُوًا ۱۸:۵٦۔ ان پر خدا کی ایک کھرب لعنت ہو۔ موجودہ دور کے اسلام کے بڑے پروفیسر اس چیز پر متفق ہیں کہ قران کبھی بھی اپنی ہی ایات منسوخ نہیں کرتا بلکہ قران، پرانی کتابوں کی شریعت کو منسوخ کرتا ہے کیونکہ قران، اخری کتاب ہے اور مھیمن بھی ہے ۵:۴۸

پھر یہ سنی اور شیعہ ملاں نہایت ہی بددیانت ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ نبی کریم، خلفاء اور صحابہ نے پیچھے صرف لکھا ہوا قران چھوڑا۔ کوئی حدیث، سنت، تفسیر کی تحریر نہیں چھوڑی۔ اس لیے الله جَلَّ جَلَالَهُ اور رسول کی اطاعت کا مطلب صرف قران کو فالو کرنا ہے۔ پھر بھی “فار-دا-سیک-آف-آرگومنٹ” یہ سنی اور شیعہ مولوی اپنی بنائی ہوئی کتب احادیث کے متعلق بھی بدیانتی کرتے ہیں۔ غامدی اور اس ڈاکٹر زبیر جیسے جعلی سکالر لوگوں کو یہ تو بتاتے رہتے ہیں کہ سنی-کتاب صحیح-مسلم میں لکھا ہے کہ حج الوداع کے خطبہ میں نبی نے کہا کہ میرے بعد قران اور میری سنت فالو کرنا مگر یہ بددیانت ملاں لوگوں کو یہ نہیں بتاتے کہ اسی کتاب صحیح-مسلم میں پانچ روایات میں لکھا ہے کہ حج الوداع کے خطبہ میں نبی نے کہا کہ میرے بعد قران فالو کرنا۔ ان پانچ روایات میں قران کے ساتھ نہ سنت کا ذکر ہے نہ اہل-بیت کا۔ اس کے علاوہ ہم ۱۰۰ سے زیادہ سنی-فرقہ کی قدیم کتب میں بھی یہی پڑھتے ہیں کہ حج الوداع کے خطبہ میں نبی نے کہا کہ میرے بعد قران فالو کرو۔ ان ۱۰۰ سے زیادہ کتب میں اس روایت میں قران کے ساتھ نہ سنت کے الفاظ ہیں نہ اہل-بیت کے۔ اپ ان سب ۱۰۰ سے زیادہ کتب کے نام اور روایت کا صفحہ نمبر ان دو لنک میں خود پڑھ سکتے ہیں۔ پہلا لنک یہ ہے، اور دوسرا لنک یہ ہے۔ تاریخی طور پر، ابن-اسحاق کی کتاب سیرہ سب سے پرانی کتاب ہے، اس میں لکھا ہے وفات سے چند دن پہلے، نبی کریم نے لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ میں نے ہمیشہ اس چیز کو ہی ہلال قرار دیا جو قران میں ہلال ہے اور ہمیشہ اسی چیز کو حرام قرار دیا جو قران میں حرام ہے۔ یعنی نبی نے بتایا کہ انہوں نے صرف قران کو ہی فالو کیا، اپنی مرضی نہیں کی۔ یہ روایت بہت سی اور کتب میں بھی ملتی ہے.

وہ روایات جن میں قران کے ساتھ سنت کے شریک الفاظ ملتے ہیں سنی فرقہ نے فورج کی ہیں اور وہ روایات جن میں قران کے ساتھ اہل-بیت کے شریک الفاظ ملتے ہیں وہ شیعہ فرقہ نے فورج کیں ہیں کیونکہ ایسی روایات قران کی ایات ٦:۱۱۴، ۵:۴۴ کے الٹ چلتی ہیں، اور نبی، کبھی بھی ایسی بات نہیں کرسکتے تھے جو قران کے الٹ ہو ٦:۱۱۴۔ وہ روایات جن میں صرف قران کا ذکر ہے ایسی روایات ایات ٦:۱۱۴، ۵:۴۴ کے ساتھ چلتی ہیں۔

اس کے علاوہ، پورے قران-مجید میں “سنت-رسول” کے الفاظ نہیں ہیں نہ ہی کوئی قرانی ایت یہ حکم دیتی ہے کہ رسول کی سنت کو فالو کرو۔ قران صرف دو قسم کی سنت کی بات کرتا ہے، الله جَلَّ جَلَالَهُ کی سنت؛ اور ماضی کے مجرم لوگوں کی سنت۔ یہ “سنت-رسول” کی ٹرم سنی اور شیعہ کی پیداوار ہے۔ قران، نبی محمد اور نبی ابراہیم کی اسوۃ-حسنہ کی بات کرتا ہے ہے مگر ان دونوں نبیوں کی صحیح اسوۃ-حسنہ صرف قران کے اندر ہے۔ اسی لیے صحابہ نے اسوۃ-حسنہ کا کوئی لکھا ہوا نسخہ پیچھے نہیں چھوڑا۔ اور حضرت عائشہ نے بھی کہا کہ قران، رسول کا اخلاق ہے۔ القرآن فإن خلق رسول الله۔ اپ، سنت پر یہ صفحہ ضرور پڑھیں۔

ایک اور راشنل نقطہ یہ ہے کہ اگر سنت اور حدیث، دین کا حصہ ہوتیں تو چار خلفاء ضرور سنت اور حدیث کی کتب لکھواتے۔ مگر انہوں نے ایسی کوئی کتاب نہیں لکھوائی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سنت اور حدیث کی کتب محض شیعہ اور سنی مشرکین کی خرافات ہیں۔ حتی کہ سنی فرقہ کی قدیم بیسیوں کتب میں لکھا ہے کہ نبی اور چار خلفاء کے دور میں سنت، حدیث اور تفسیر پر پابندی تھی۔ خلیفہ عمر کے دور میں سنت اور حدیث اور تفسیر کے قصے لوگوں میں پھیلانا قابل سزا جرم تھا۔ ثبوت کے لیے اپ ایسے سارے حوالاجات اس صفحہ پر پڑھ سکتے ہیں بلکہ ضرور پڑھیں کیونکہ یہ صفحہ بہت اہم ہے۔ اللہ تعالی اور رسول کی اطاعت کا مطلب صرف اس کتاب کو فالو کرنا ہے جو اللہ تعالی نے لوگوں تک رسول کے ذریعے بھیجی اور اس کتاب کا نام صرف قران ہے ٦:۱۹

سنی اور شیعہ، ہر راشنل ڈبیٹ میں ایک منٹ کے اندر اندر صرف چار قرانی ایات ٦:۱۱۴۔ ۵:۴۴، ۳:۱۰۳، ۳:۱۰۵ سے مکمل ناک-آؤٹ ہو جاتے ہیں کیونکہ شیعہ اور سنی فرقوں کی بنیاد جھوٹ، من-گھڑت کتب، فراڈ، کفر اور شرک پر رکھی گئی ہے اور ایسی شیطانی-عمارت جس کی بنیاد جھوٹ، من-گھڑت کتب، فراڈ، کفر اور شرک پر کھڑی ہو، مسلسل متزلزل رہتی ہے۔ ہم جیسے ایت ۲۲:۷۸ کے سچے مسلمان کے ساتھ، کسی راشنل ڈبیٹ میں، جب کوئی سنی مشرک شکست کھا جاتا ہے تو وہ مشرک اپنی مشرکانہ رائفل کی ميگزین کی اخری چھ مشرکانہ گولیاں فائر کرتا ہے۔ اور ان کی وہ چھ مشرکانہ گولیاں ان کے ۱۲۰۰ سال پرانے رٹے-رٹائے یہ چھ احمقانہ سوال ہیں۔ وہ سوال یہ ہیں: کدھر ہے قران میں نماز کی تفصیل؛ کدھر ہے قران میں وضو؛ کدھر ہے قران میں غسل؛ کدھر ہے قران میں حج کے مناسک؛ کدھر ہے قران میں زکوۃ؛ کدھر ہیں قران میں روزے یعنی فاسٹنگ۔ اپ، ان کے ان بے-تکے سوالات سے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ مشرک، ایات ٦:۱۱۴، ۱٦:۷۹ کا انکار کر رہے ہیں کیونکہ یہ ایات کہتی ہیں کہ دین اسلام کے معاملہ میں قران مفصل ہے اور مکمل ہے۔ اور قران کی ایات کہتی ہیں جو قران کی ایک ایت کا بھی انکار کرے وہ کافر ہے۔ ان مشرکین کے ان سوالات کی نوعیت کچھ ایسے ہے کہ اگر کوئی سنی یہ سوال کر دے کہ اگر قران مکمل اور مفصل ہے تو قران میں ایٹم بم بنانے کا فارمولا کیوں نہیں ہے؟ ایسے مشرک کے لیے جواب یہ ہو گا کہ قران، نہ تو وکی-پیڈیا ہے اور نہ ہی ایٹمی-فزکس کی کتاب ہے۔ قران، اللہ تعالی کے ان قوانین اور اخلاقی-ضوابط کی کتاب ہے جن کے مطابق یہ زندگی بسر کی جائے۔ اگر قران میں پانچ نمازوں کی تفصیل نہیں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ قران کے مطابق پانچ نمازیں، دین کا حصہ نہیں ہیں۔ اگر دین کا حصہ ہوتیں تو قران، ان کی تفصیل ضرور بتاتا۔ قران، صلاۃ کی بات کرتا ہے، اور ایت ۲:۱۷۷ میں نماز کی پوجا-پاٹ کو فضول قرار دیتا ہے اور کہتا ہے یہ پوجا-پاٹ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے لَّيْسَ ٱلْبِرَّ أَن تُوَلُّوا۟ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ ٱلْمَشْرِقِ وَٱلْمَغْرِبِ۔ قرانی صلاۃ کا اس نماز سے کوئی تعلق نہیں جو ایرانی پارسیوں سے امپورٹ کی گئی تھی۔ اور پھر اڑنے والے کھوتے براق کی حدیث فورج کرکے اس نماز کو اسلام کا حصہ بنا دیا گیا تھا- یہ جاننے کے لیے کہ قرانی صلاۃ کیا ہے، یہ صفحہ پڑھیں۔ یہ جاننے کے لیے کہ اڑنے والے کھوتے براق والی حدیث کیوں، کس نے، کیسے، اور کب فورج کی گئی یہ صفحہ ضرور پڑھیں۔ ان سنی جاہلوں کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ ایت ۵:٦ میں مکمل وضو اور غسل دیا ہوا ہے جوکہ صلاۃ-جمعہ کے اجتماع یعنی میٹنگ میں شامل ہونے سے پہلے ضروری ہے۔ روزہ کا طریقہ قران نے سادہ مگر مکمل دیا ہے کہ ڈان سے ڈسک تک کھانا پینا بند رکھو، اور روزے کے دوران، بیوی سے مباشرت نہیں کرو۔ زکوۃ، اسلامی حکومت کا اقتصادی نظام ہے اور ٹیکس اس نظام کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ ملک کے حالات کے مطابق مجلس-شورہ ٹیکس کی شرح مقرر کر سکتی ہے۔ وہ دو فیصد بھی ہوسکتی ہے پانچ فیصد بھی ہو سکتی ہے، ڈھائی فیصد بھی ہو سکتی ہے اور پندرہ فیصد بھی۔ قران نازل ہونے سے پہلے مکہ کے مشرک بھی اپنی نوعیت کا حج کرتے تھے جس میں وہ پتھر کے بنے ہوئے کعبہ کو سجدے کر کے پوجتے تھے جیسے آج کل اسے سنی اور شیعہ اپنی نمازوں میں پوجتے ہیں، مشرک اپنی برانڈ کے حج میں پتھر کے بنے کعبہ کے گرد سات چکر لگاتے تھے، طلبیہ پڑھتے تھے اور حجر-اسود کو چومتے بھی تھے۔ قران نے، مشرکین کے یہ مناسک، اسلامی-حج کا حصہ نہیں بنائے،۔ اسی لیے مشرکین کے ان مناسک کا قران میں ذکر نہیں ہے۔ المختصر:اسلامی حج کے وہی مناسک ہیں جن کا قران نے ذکر کیا ہے۔ جن مناسک کا ذکر مکمل اور مفصل قران نے نہیں کیا وہ اسلامی حج کا بالکل بھی حصہ نہیں۔ ابھی، کوئی سنی یہ کہے گا کہ نماز اور حج کے مناسک اس نے حدیث اور سنت کی کتب سے سیکھے ہیں۔ تو، اس مشرک کو ہمارہ جواب یہ ہوگا کہ جناب مشرک صاحب: اپ سفید جھوٹ بول رہے ہیں کیونکہ رسول، خلفاء اور تمام صحابہ نے پیچھے ایک صفحہ بھی حدیث اور سنت کا نہیں چھوڑا؛ صرف لکھا ہوا قران چھوڑا۔ اور سنی فرقہ کی اپنی بیسیوں کتب میں لکھا ہے کہ رسول اور چار خلفاء کے دور میں حدیث اور سنت کے قصے کہانیوں پر پابندی تھی، اور اپ اس کا ثبوت سارے حوالاجات کے ساتھ اس صفحہ پر خود پڑھ سکتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ جس گروہ نے پارسی نمازیں اسلام میں داخل کیں، اسی گروہ نے حدیث سنت اسباب-نزول اور تفسیر کی کتب فورج کیں

ہم قران-الحکیم کی ہر ایت مبارکہ کو جانتے ہیں۔ قران-مجید کسی ایت میں بھی یہ نہیں کہتا کہ پتھر کے بنے ہوئے کعبہ کو مکہ کے مشرک بت-پرستوں کی طرح سجدے کر کے پوجو۔ قران تو ایت ۲:۱۱۵ میں کہتا ہے کہ تم جدھر بھی رخ کرو وہاں الله جَلَّ جَلَالَهُ موجود ہے۔ یہاں وجود سے مراد مادی وجود نہیں ۲۴:۳۵۔ اس لیے الله جَلَّ جَلَالَهُ کسی خاص مکعب نما کمرے میں یا کسی خاص سمت میں مقید نہیں۔ وہ تو شاہ-رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ۵۰:۱٦ پھر ان فرقہ پرستوں نے اپنے خدا کو ایک مکعب نما کمرے میں کیوں مقید کر دیا ہے؟ کچھ نے اپنے خدا کو اسمان کے کسی کونے میں مقید کر رکھا ہے حالانکہ ایت ۲:۲۵۵ میں لکھا ہے کہ اس کی کرسی یعنی عرش پوری کائنات میں پھیلا ہوا ہے یعنی وہ ہرجگہ موجود ہے وَسِعَ كُرْسِيُّهُ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ ۔ ارے بھائی اسے ڈھونڈنا ہے تو مکہ کی بجائے اسے اپنے مٹی کے بنے گھر میں ڈھونڈو کیونکہ وہ شاہ رگ سے بھی قریب ہے۔ قران-مجید کی کوئی ایت بھی یہ نہیں کہتی کہ کعبہ کو سجدہ کرنا قرانی-صلاۃ کا حصہ ہے۔ اور قران کے اندر تو لفظ سجدہ کے معنی “الله جَلَّ جَلَالَهُ کے احکام کے آگے جھکنا ہے”، کعبہ کی طرف بت-پرستوں کی طرح زمین پر متھا ٹیکنا نہیں۔

قران-مجید ایات ۲۲:۱۸، ۵۵:٦ میں بتاتا ہے کہ چاند، سورج اور پہاڑ بھی سجدہ کرتے ہیں۔ کیا اپ نے کبھی چاند یا سورج یا پہاڑ ہمالیہ کو کسی بریلوی یا چڑیلوی یا وھابی یا دیو-بندی یا جن-بندی یا نس-بندی مسجد میں داخل ہو کر کعبہ کی طرف متھا ٹیکتے دیکھا ہے؟ قران، ایت ۲۴:۴۱ میں یہ بھی بتاتا ہے کہ پرندے بھی صلاۃ کو فالو کرتے ہیں۔ اگر صلاۃ کے معنی نماز-پوجا پاٹ ہے تو ہم، شیعہ اور سنی ملاؤں سے پوچھتے ہیں کہ کیا پرندے شیعہ برانڈ کی اذان دیتے ہیں یا سنی برانڈ کی؟ کیا پرندے شیعہ حاکم معزدولہ کا فورج کیا ہوا درود ابراہیمی بھی پارسی نماز کی تشاھہد میں پڑھتے ہیں؟ تشاھہد کے دوران پرندے کیا شہادت کی انگلی کو اٹھا کر حنفی طریقے سے انگلی ہلاتے ہیں یا مالکی طریقے سے یا شافئی طریقے سے یا حنبلی طریقے سے؟ کیونکہ چاروں کا طریقہ مختلف ہے۔ کیا پرندے فاتحہ پڑھتے ہیں؟ اور کیا پرندے فاتحہ کے اخر میں چرچ سے نقل کی ہوئی “آمین” بریلویوں کی طرح پڑھتے ہیں یا چلا کر وھابیوں کی طرح ایک کلومیٹر لمبی آآآآآآآ۔۔۔۔۔۔۔۔مین پڑھتے ہیں؟ کیا پرندوں کو پتہ ہے کہ نماز-وسطی کونسی نماز ہے؟ پرندے بیچاروں کو بھلا کیسے پتہ ہو گا جب سنی اور شیعہ ملاؤں کو ۱۲۰۰ سال سے نہیں پتہ کہ صلاۃ-وسطی جس کو وہ نماز-وسطی کہتے ہیں کونسی نماز ہے؟

سیدھی سے بات ہے کہ اگر خاتم الأنبياء عليه السلام اور صحابہ رضي الله عنهم نے دس برس تک ہر روز پانچ نمازیں پڑھی ہوتیں تو بچے بچے کو پتہ ہوتا کہ نماز-وسطی کونسی ہے۔ خاتم الأنبياء عليه السلام اور صحابہ رضي الله عنهم کی وفات کے بہت بعد یہ پانچ پارسی نمازیں، براق کی حدیث فورج کرکے اسلام میں داخل کی گيئں۔ اس لیے ان ملاؤں کو صلاۃ وسطی کے معنی کا پتہ ہی نہیں۔ چنانچہ صدیوں سے سنی ملاں، نماز-وسطی کی اپنی اپنی کہانی سنا رہے ہیں۔ مالک کی مؤطا میں ایک روایت بتاتی ہے کہ نماز-وسطی کی نماز ظہر کی نماز ہے- مگر اسی کتاب کی ایک اور روایت کہتی ہے کہ نماز-وسطی کی نماز فجر کی نماز ہے۔ نسائی لکھتا ہے کہ نماز-وسطی سورج کے طلوع ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہے۔ یہ کونسی نماز ہے مسٹر نسائی؟ (اپ کو کچھ سمجھ ائی؟)۔ پارسی حدیث فورجر ترمذی لکھتا ہے کہ نماز-وسطی کی نماز عصر کی نماز ہے مگر فقہ مالکی کا ایک بہت بڑا برج حافظ ابن عبد-البر اپنی کتاب فتح-البر میں لکھتا ہے کہ کسی حال میں بھی عصر کی نماز، نماز-وسطی نہیں ہے۔ طبری لکھتا ہے کہ نماز-وسطی کی نماز فجر کی نماز ہے۔ طبری ایک اور جگہ لکھتا ہے کہ جب ایک ادمی نے خاتم الأنبياء سے پوچھا کہ صلاۃ وسطی کونسی ہے تو خاتم الأنبياء نے جواب دیا کہ صلاۃ-وسطی، صلاۃ ہے (اپ کو کچھ سمبھ ائی؟)۔ مفسر الرازی لکھتا ہے کہ نماز-وسطی کی نماز فجر کی نماز ہے۔ شامی ملاں ابن-کثیرلکھتا ہے کہ نماز-وسطی کی نماز عصر کی نماز ہے مگر ایک اور صفحہ پر ابن-کثیر لکھتا ہے کہ نماز-وسطی کی نماز فجر کی نماز ہے۔ ایک اور صفحہ پر ابن-کثیر لکھتا ہے کہ نماز-وسطی کی نماز ظہر کی نماز ہے(کیا اپ کو کچھ سمبھ آئی یہ خرافات پڑھ کر؟)- سنی اماموں کے صلاۃ-وسطی کے متعلق یہ اٹکل-پچو اور اندازے پڑھ کر اگر اپ، ابھی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ خاتم الأنبياء عليه السلام اور صحابہ رضي الله عنهم، موجودہ پانچ پارسی نمازیں پڑھ کر پتھر کے بنے ہوئے کے کعبہ کو سجدے کیا کرتے تھے تو صاحب: پھر، اپ لاعلاج ہیں۔ ابن-شیبہ، مصناف میں لکھتا ہے کہ کہ نماز-وسطی کی نماز عصر کی نماز ہے۔ اسی کتاب میں ایک اور جگہ لکھا ہے کہ جب ابن-سیرن کو پوچھا گیا کہ صلاۃ وسطی کونسی صلاۃ ہے تو اس نے جواب دیا کہ یہ وہ صلاۃ ہے جس کے متعلق لوگوں کو احتیاط برتنی چاہیے (اپ کو کچھ سمبھ ائی؟)۔ اسی کتاب مصناف ابن-شیبہ میں ایک اور جگہ لکھا ہے کہ کہ نماز-وسطی کی نماز ظہر کی نماز ہے۔ اسی کتاب میں ایک اور جگہ لکھا ہے کہ نماز-وسطی کی نماز فجر کی نماز ہے۔ مصناف عبدالرزاق کی ایک رویت میں لکھا ہے کہ جب ابن-جريج نے عطاء سے پوچھا کہ صلاۃ-وسطی کونسی صلاۃ ہے تو اس نے ان الفاظ میں جواب دیا “اظنھا الصبح” میرا گیس ہے یعنی اندازہ ہے کہ وہ فجر ہے۔ یعنی اپ نے دیکھا کہ ان کے امام، صدیوں سے صلاۃ-وسطی کے متعلق گیس یعنی اٹکل-پچو لگا رہے ہیں۔ اگر خاتم الأنبياء عليه السلام اور صحابہ رضي الله عنهم نے روزانہ واقعی پانچ نمازیں پڑھی ہوتیں، تو صلاۃ-وسطی کے بارے میں ایسے اٹکل-پچو اختلافات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا- نماز کے متعلق سب کی سب احادیث اسی گینگ نے فورج کی ہیں جنہوں نے پانچ پارسی نمازوں کو براق کی حدیث فورج کرکے اسلام میں داخل کر دیا تھا۔

ایت ۲:۱۷۷ صاف بتا رہی ہے کہ نمازوں کی پوجا-پاٹ کوئی نیکی کا کام نہیں مگر سنی مترجم، ترجمہ کرتے وقت اس ایت ۲:۱۷۷ کے ترجمہ کی تحریف کر دیتے ہیں۔ نماز کے متعلق، اور بھی کافی اختلاف ہیں امام کے پیچے فاتحہ پڑھنی ہے کہ نہیں۔ فاتحہ سے پہلے بسم-اللہ پڑھنی ہے کہ نہیں۔ رفعہ-یدین کرنا ہے کہ نہیں، شلوار ٹخنوں سے اوپر ضروری ہے کہ نہیں- حقیقت یہ ہے کہ نہ نماز پوجا-پاٹ اسلام کا حصہ ہے اور نہ ہی خاتم الأنبياء عليه السلام اور صحابہ رضي الله عنهم نے کبھی یروشلم یا کعبہ کی طرف سجدے کر کے نماز پڑھی۔ سنی حدیث اماموں نے یہ سفید جھوٹ لکھا ہے کہ پہلے، مسلمان یروشلم کی مسجد-اقصی کی طرف سجدے کر کے نماز پڑھا کرتے تھے اور بعد میں پارسی بخاری کا کوئی نامعلوم ادمی ایا اور اس نے مسلمانوں کو کہا کہ منہ مکہ کے کعبہ کی طرف موڑ لو۔ یہ کہانی دو سو فیصد من-گھڑت ہے۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق اس کہانی کا نہ سر ہے نہ پاؤں۔ سب پڑھے لکھے تاريخ-دان جانتے ہیں کہ خاتم الأنبياء کی زندگی میں فلسطین میں نہ کسی مسجد-الاقصی کا وجود تھا نہ ہی کسی یہودی ٹیمپل کا وجود تھا۔ جو مسجد-الاقصی اج ہم فلسطین میں دیکھتے ہیں اسے بنو-امیہ کے خلفاء نے خاتم الأنبياء کی موت کے ساٹھ سال بعد تعمیر کروایا تھا مگر معراج کی من-گھڑت احادیث کہتی ہے کہ معراج کے دوران خاتم الأنبياء، براق پر اڑ کر فلسطین کی اس مسجد-الاقصی میں گئے تھے جو مسجد-الاقصی اس وقت موجود ہی نہیں تھی۔ اس سے ثابت ہوا کہ براق والی حدیث، سو-فیصد من-گھڑت ہے، اور وہ پانچ نمازیں جو اس جعلی براق پر لاد کر سنی لائے تھے وہ بھی آٹو-میٹیکلی جعلی ٹھری کیونکہ پانچ نمازوں کی کہانی اس براق والی جعلی حدیث کا حصہ ہے۔ بڑے بڑے مسلم سکالرز نے اس براق کے قصے کو تاریخی-فکشن قرار دیا ہے۔ حتی کہ مفسر الرازی نے بھی براق کے قصے کو قبول نہیں کیا۔ پھر یاد دلاتا چلوں کہ پانچ نمازیں اسی جعلی براق کے ذریعے سے ہی ہم مسلمانوں پر مسلط کی گئیں۔ چونکہ براق جعلی ہے اس لیے جو پانچ نمازیں، اس جعلی براق کی کمر پر لاد کر لائی گئیں وہ بھی جعلی ہیں۔

قران، ایات ۵:۹۵، ۵:۹۷ میں کعبہ کے دو فنکشن بتاتا ہے کعبہ قربانی کی جگہ ہے، اور کعبہ، حجاج کی لیے پناہ-گاہ بھی ہے۔ قران میں کہیں نہیں لکھا کہ کعبہ کو سجدے کرو۔

اپ، اب سمجھ سکتے ہے کہ پانچ نمازوں کا پورا پلاٹ، جعلی ہے۔ اور يروشلم میں یہودیوں کے ٹیمپل کو رومن-جنرل ٹائٹس نے سال ستر عیسوی میں مکمل تباہ کر دیا تھا اور خاتم الأنبياء کے زمانے میں یروشلم میں کوئی یہودیوں کا ٹیمپل بھی موجود نہیں تھا۔ لہذا دو-قبلہ کی پوری کی پوری کہانی من-گھڑت ہے۔ بنو-امیہ نے امام زہری کو دبا کر کہا تھا کہ یہ دو-قبلہ والی حدیث فورج کرو کیونکہ بنو-امیہ کا مکہ کے حاکم عبداللہ بن زبیر سے سیاسی جھگڑا تھا۔ شام کے مسلمان جب مکہ حج کے لیے اتے تھے تو عبداللہ بن زبیر حجاج سے اپنی وفاداری کا حلف لیتے تھے۔ جب دمشق میں بنو-امیہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے شامی مسلمانوں کو مکہ، حج پر جانے سے روک دیا۔ مگر شامی مسلمانوں نے شور مچایا کہ خلیفہ ہمیں حج سے کیسے منع کر سکتا ہے جب کہ قران ہمیں حج کرنے کو کہتا ہے۔ اس پر بنو-امیہ کے خلیفہ نے اپنے درباری مولوی امام زہری کو دو-قبلہ یعنی قبلاتین کی حدیث کو فورج کرنے کا حکم دیا۔ بعد میں بنو-امیہ نے یروشلم میں مسجد بنوا کر اسے ایت ۱۷:۱ سے کنیکٹ کرنے کے لیے اس مسجد کا نام مسجد-الاقصی رکھ دیا اور شامی مسلمانوں کو کہا کہ اب مکہ کی بجائے اپ اس نئی مسجد-الاقصی میں حج کریں۔ چنانچہ شامی مسلمان تقریبا سولہ مہینے تک وہاں جا کر جعلی نمبر-دو حج کرتے رہے اور گولڈن گھمبد کے گرد سات چکر لگاتے رہے۔ مگر جب بنو-امیہ نے عبداللہ بن زبیر کو حجاج بن یوسف کے ذریعے قتل کروا کر مکہ پر قبضہ کر لیا تو پھر شامی مسلماں دوبارہ حج کے لیے مکہ جانے لگے۔ یہ سارہ واقعہ پرانے عرب تاريخ-دانوں کی کتب میں لکھا ہوا ہے اور ہم نے اسے خود پڑھا ہے۔ باقی تفصیل اپ ہمارے صلاۃ کے صفحہ میں پڑھ سکتے ہیں۔

اب اپ کے ذہن میں یہ سوال اٹھ چکا ہو گا کہ پھر قرانی ایت ۱۷:۱، کونسی مسجد-الاقصی کی طرف اشارہ کر رہی ہیں؟ اس کا جواب بھی عربوں کی پرانی کتابوں میں موجود ہے۔ ۱۴۰۰ سال پہلے مدینہ منورہ کے بہت سے نام تھے اور ان ناموں میں سے مدینہ شہر کا ایک معروف نام مسجد-الاقصی بھی تھا۔ تو بات صاف ہو گئی کہ ایت ۱۷:۱ خاتم الأنبياء کے مکہ سے مدینہ کی طرف رات کے سفر کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ اس سفر میں جس اونٹنی پر خاتم الأنبياء سوار تھے اس کا نام قصوی تھا اور لفظ قصوی، لفظ مسجد-الاقصی کا مؤنث ہے۔جو شاہ رگ سے قریب ہے وہ جانتا ہے کہ ہمارہ اس کے سوا، کوئی اور ایجنڈا نہیں ہے کہ ایت ۲:۴۲ پر عمل کرتے ہوئے اپ کو صرف سچ بتایا جائے۔ قران کی ایت ۲:۱۷۷ کے مطابق، نمازوں میں نیکی نہیں ہے بلکہ نیکی یہ ہے کہ مسلمان بننے کے بعد اپ اپنے والدین اور بال بچے کی خدمت کریں۔ رشتہ داروں کی مدد کریں۔ معذور اور غریب کی مدد کریں۔ یعنی نیکی، خدمت-خلق میں ہے نماز-پوجا-پاٹ میں نہیں ہے

سنی اور شیعہ امام، صدیوں سے اپنے پیروکاروں کو یہ بتا رہے ہیں کہ قبلہ کے معانی وہ مکعب نما کمرہ ہے جس طرف سجدے کر کے پانچ پارسی نمازیں پڑھی جاتی ہیں۔ مگر یہ بات غلط ہے۔ قران-مجید سب سے زیادہ خوبصورت کتاب ہے۔ اس میں تصریف کے ذریعے ایات ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں۔ ایت ۱۰:۸۷ کے مطابق، الله جَلَّ جَلَالَهُ نے حضرت موسی کو حکم دیا تھا کہ مصر سے کچھ گھر لے کر ان کو قبلہ بنا لو اور وہاں سے اسلام کے پیغام کی لوگوں کو تبلیغ کرو۔ کیا یہ ایت موسی کو یہ حکم دے رہی ہے کہ ان گھروں کو قبلہ بنا کر ان گھروں کو نماز میں سجدے کر کے پوجنا شروع کر دو؟ نہیں۔ اس بات کا کوئی تک نہیں بنتا۔ یہ ایت ۱۰:۸۷ صاف بتا رہی ہے کہ قبلہ کا مطلب جی-ایچ-کیو یعنی جنرل-ھیڈ-کوارٹر ہے مرکز ہے۔ جب قران کہتا ہے کہ مسجد-الحرام مسلمانوں کا قبلہ ہے تو اس کے معانی جی-ایچ-کیو یعنی جنرل-ھیڈ-کوارٹر ہے۔

ایت ۲:۱۴۲ میں مشرکین مکہ کی طرح، مسلمانوں کو کعبہ کو سجدے کر کے پوجنے سے منع کیا گیا سَيَقُولُ ٱلسُّفَهَآءُ مِنَ ٱلنَّاسِ مَا وَلَّىٰهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ ٱلَّتِى اور اسی ایت کے اخری حصہ میں ان الفاظ قُل لِّلَّهِ ٱلْمَشْرِقُ وَٱلْمَغْرِبُ میں بتا بھی دیا گیا کہ ان کو ایسا کرنے سے کیوں منع کیا گیا ہے کیونکہ الله جَلَّ جَلَالَهُ ہرجگہ ہرطرف موجود ہے اور کعبہ میں ہی مقید نہیں۔ مگر ان احمقوں ٱلسُّفَهَآءُ کو جنہیں کعبہ کی پوجا پاٹ کی لت پڑ چکی تھی کہا کہ ہمیں کعبہ کی پوجا-پاٹ سے کیوں منع کیا گیا ہے، اور پھر ان احمقوں ٱلسُّفَهَآءُ نے ایت ۲:۱۴۲ کا ترجمہ ہی بدل ڈالا۔ اس ایت کے ترجمہ میں انہوں نے یہود، منافقین اور یروشلم جیسے الفاظ ڈال کر پورے ترجمہ کی تحریف کردی۔ اور اس ایت کو اس من-گھڑت قصے سے جوڑ دیا جس میں یہ کہا گیا کہ مسلمان، یروشلم کی مسجد الاقصی (جو اس وقت موجود ہی نہیں تھی) کی طرف سجدے کر کے نماز پڑھ رہے تھے اور بخاری کی کتاب کے مطابق کوئی نامعلوم شخص ایا اور مسلمانوں کو کہا اب یروشلم سے مکہ کے کعبہ کی طرف منہ موڑ لو۔ یہ کہانی ایک ہزار-فیصد من-گھڑت ہے۔ قران-مجید ہمیں بتاتا ہے اس زمین پر سب سے پہلا قبلہ مکہ والی مسجد الحرام ہے۔ تو پھر مکہ کے لوگوں کو اس وقت یروشلم کی اس مسجد-الاقصی کو نماز میں سجدے کرنے کی کیا ضرورت تھی، اور نبی-کریم کی حیات میں یروشلم میں کوئی مسجد موجود ہی نہیں تھی نہ یہودیوں کا ٹیمپل موجود تھا۔ یروشلم والی مسجد-الاقصی تو نبی-کریم کی موت کے ساٹھ سال بعد بنو-امیہ نے تعمیر کروائی تھی اور اسے بات کو سب تاريخ دان جانتے ہیںقرآن کی تحریف مت کرو۔ ۳:۵۷ کسی طریقہ سے بھی ایات ۳:۵۵، ۵:۱۱۷ میں فٹ نہیں ہوتی۔ جب انسان کی زندگی پوری ہو جاتی ہے تو یہ موت ہی ہے۔ جب پچیس سے زیادہ ایات میں، لفظ وفات، موت کے لیے استعمال ہوا ہے تو پھر اپ کو کیا تکلیف ہے کہ اگر وہی لفظ وفات ایات ۳:۵۵، ۵:۱۱۷ میں نبی کی موت کے لیے بھی استعمال ہو؟ اگر وہی لفظ وفات، ایت ۱۰:۴٦ میں خاتم الأنبياء کی موت کے لیے استعمال ہوا ہے تو پھر، وہی لفظ وفات، ایات ۳:۵۵، ۵:۱۱۷ میں نبی عیسی کی موت کے لیے استتعمال کرنے میں کیا قباحت ہے؟ باز آ جاؤ، انسان بن جاؤ، بندے دے پتر بن جاؤ، اور ابلیس کے رستہ پر چل کر قران کی تحریف مت کرو۔ یہ بہت بڑا جرم ہے۔ قران ایک مبین کتاب ہے الٓر تِلْكَ ءَايَـٰتُ ٱلْكِتَـٰبِ ٱلْمُبِينِ۔ اس میں تحریف مت کرو اس میں کجی مت ڈھونڈو۔ نبی عیسی مر چکے اور مردے واپس نہیں اتے۔ نبی عیسی کے زندہ اسمان پر جانے اور پھر دوبارہ واپس انے کا قصہ چرچ کی ایجاد ہے۔ پھر ساتویں صدی عیسوی میں جب عیسائی مسلمان ہوئے تو انہوں نے یہ خرافات مسلمانوں میں پھیلا دی۔ پھر یہ کہانی من-گھڑت کتب احادیث میں ڈال دی گئی اور پھر من-گھڑت احادیث کو قران سے ری-کنسائل کرنے کہ لیے اپ جیسے لوگوں نے ایات ۳:۵۵، ۵:۱۱۷ کے ترجمہ کی تحریف شروع کردی۔

چونکہ مسلمان کے لیے قران کافی ہے اس لیے میں انسانوں کی بنائی کتب کا حوالہ نہیں دینا چاہتا مگر صرف اپ کو اپ کے اپنے آئینہ میں اپ کا چہرہ دکھانے کے لیے عرض کرتا ہوں کہ کہ اپ کے پارسی چاچا بخاری نے بھی لکھا ہے کہ لفظ مُتَوَفِّيكَ کا معانی موت ہے اور پورے قران میں لفظ مُتَوَفِّيكَ صرف ایت ۳:۵۵ میں استعمال ہوا ہے۔ مفسر ابی حاتم نے پوری سند کے ساتھ اسی لفظ مُتَوَفِّيكَ کو ابن عباس سے نریٹ کیا ہے کہ کہ لفظ مُتَوَفِّيكَ کا معانی موت ہےسچ کو برداشت کرنے کی اور اس کو ہضم کرنے کی عادت ڈالو۔ سب سے پہلے منکر-حدیث، خاتم الأنبياء عليه السلام تھے۔ تمہاری اپنی سنی فرقہ کی تیس سے زیادہ معروف قدیم کتابوں میں لکھا ہے کہ خاتم الأنبياء عليه السلام نے کہا مجھ سے قران کے سوا کچھ نہ لکھو۔ خاتم الأنبياء عليه السلام سے جب صحابہ نے احادیث لکھنے کی اجازت مانگی تو اپ نے انکار کیا۔ پھر ابوبکر رضي الله عنه نے مسلمانوں کو کہا حدیث نریٹ نہیں کرو اور صرف قران کو فالو کرو۔ لہذا ابوبکر رضي الله عنه بھی منکر-حدیث تھے۔ عمر رضي الله عنه نے لوگوں سے حدیث کی تحریریں جمع کر کے آگ میں جلا دیں اور احادیث پر بین لگا دیا۔ پھر بھی تین صحابہ لوگوں میں احادیث پھیلا رہے تھے عمر رضي الله عنه نے انہیں تاحیات قید کر دیا۔ تو عمر رضي الله عنه بھی منکر-حدیث تھے۔ علی رضي الله عنه نے ایک خطبہ میں لوگوں کو کہا سب احادیث تلف کر دو۔ تو علی رضي الله عنه بھی منکر-حدیث تھے۔ قران کے مطابق جو ادمی منکر-حدیث نہیں ہے وہ مشرک کافر ہے ۵:۴۴، ٦:۱۱۴- اپ تمام کتب کے حوالاجات ہمارے “سنت اور حدیث کی تاريخ” کے صفحہ پر پڑھ سکتے ہیں۔ ہم ثبوت کے بغیر بات نہیں کرتے۔ سنی فرقہ کی چھ کتب اور شیعہ کی چار کتب، خاتم الأنبياء کی وفات کے ۲۵۰ سال بعد ایرانی سوڈو پارسی اماموں نے فورج کیں جو کہ صبائی باطنی تحریک کے منافق تھے جن کی کتب خاتم الأنبياء اور قران-مجید کی بار بار توہین کرتی ہیں۔ یہ مرزا جیسے سوڈو-سکالر اپ جاہلوں کو مزید گمراہ کر رہے ہیں

وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا

أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا

وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْكَـٰفِرُونَ

هُمُ ٱلْكَـٰفِرُونَ
هُمُ ٱلْكَـٰفِرُونَ
هُمُ ٱلْكَـٰفِرُونپورے قران-الکریم میں سنت-رسول کی اصطلاع موجود ہی نہیں ہے اور نہ ہی رسول، چار خلفاء اور صحابہ نے کوئی بھی حدیث اور سنت کی تحریر پیچھے چھوڑی۔ تو، اس بات سے سو-فیصد واضع ہو جاتا ہے کہ سنت اور حدیث کی خرافات، سنی اور شیعہ فرقوں کی ایجاد ہے بدعا ہے جس کا تعلق اس دین اسلام سے ہرگز نہیں جوکہ قران-الحکیم میں فائنل ہو چکا ہے ٦:۱۱۴، ۲۸:۸۵، ۲۵:۳۰۔ جو قران میں نہیں ہے وہ دین-اسلام کا حصہ نہیں ہے ۱٦:۸۹۔ جو قران کو فالو کرتے ہیں وہ اللہ اور رسول کو فالو کرتے ہیں ۴۷:۲ اور جو لوگ سنت اور حدیث کی من-گھڑت کتب کو فالو کرتے ہیں بلاشک ان کا مرشد، ابلیس ہیں جو قیامت کے روز ان مشرکوں کو یہ کہہ کر چھوڑ جائے گا کہ مجھے قصور-وار مت ٹھراؤ، میں نے تمہیں غلط رستہ پر چلنے کے لیے مجبور تو نہیں کیا تھا۔ تم خدا کے سچے خادم ہوتے تو میری بات نہ سنتے ۱۴:۲۲قران، فرقہ پرستی کی اجازت نہیں دیتا۔ کوئی سنی یا شیعہ مولوی کیا ہمیں بتا سکتا ہے وہ قران کے اس حکم کو کیوں نہیں مانتے؟ اور جو قران کے حکم سے انکار کرے، وہ تو مسلمان رہتا ہی نہیں۔ قران ایک مبین کتاب ہے اور اس کی ایات کی تاویلات اور تعبیرات صرف وہی لوگ کرتے ہیں جن کا مرشد ابلیس ہے۔ ایت نمبر ۵:٦ میں سر اور پاؤں کا مسا کرنے کا حکم ہے۔ پاؤں دھونے کا نہیں۔ اگر کسی کے پاؤں گندے ہیں تو وہ اگر گندے پاؤں کو دھو لیتا ہے تو اس میں گناہ نہیں۔ شیعہ کی طرح، سنی فرقہ نے بھی جعلی سنت اور حدیث کے قصے گھڑ رکھے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاؤں دھونا سنت ہے۔ یہ جھوٹ بکتے ہیں کیونکہ ٦٦:۱، ٦:۱۱۴ میں خدا نے رسول کو حکم دیا کہ صرف وہ فالو کرو جو قران میں ہے، اور قران میں پاؤں کے مسا کا حکم ہےمہندس مرزا کو نبی عیسی اور مریم کے بارے میں ہمارا جواب

قران، مبین کتاب ہے اور خود اتھارٹی ہے۔ قران اپنی تصریف کے ذریعے خود اپنی تفسیر کرتا ہے۔ لہذا قران، لونڈے لپاڑے سنی اور شیعہ ملاؤں اور مرزوں اور جاہل اماموں کے اجماع کا محتاج نہیں۔ رہی بات احادیث کی تو خاتم الأنبياء نے، چار خلفاء نے اور تمام صحابہ نے پیچھے ایک صفحہ بھی احادیث کا نہیں چھوڑا۔ سب کی سب احادیث، سنت، سیرت، فقہ، اسباب-نزول اور تفاسیر کی کہانیاں سنی اور شیعہ فرقوں کی من-گھڑت خرافات ہیں۔ قران کی ایت ۵:۱۱۷ میں نبی عیسی طبعی موت مر چکے ہیں اور مردے واپس نہیں اتے۔ مرزا قادیانی ایک فراڈ تھا مگر سنی اور شیعہ مولوی، مرزا قادیانی سے بھی بڑا فراڈ ہیں

نبی عیسی کی زندگی پر ہماری ٹیم نے چالیس سال تحقیق کی ہے۔ سب سے پرانی عیسائیوں کی چار گاسپل میں نہ نبی عیسی کے زندہ اوپر جانے کی نہ دوبارہ واپس انے کی کہانی موجود ہے اور نہ ہی نبی عیسی کی بدون-باپ پیدائش کی کہانی موجود ہے۔ اب یہ ایک کامن-سینس کی بات ہے کہ اگر نبی عیسی کے زندہ اوپر جانے کی اور دوبارہ واپس انے کی کہانی اور نبی عیسی کی بدون-باپ پیدائش کی کہانی صحیح ہوتی تو چار گاسپل اسے کیسے نظر انداز کر سکتی تھیں۔ یہ دونوں کہانیاں چرچ نے صدیوں بعد گاسپلز میں ڈالیں۔ پھر یہ دونوں کہانیاں سنی اور شیعہ کی احادیث کی کتب میں ڈال دی گيئیں اورپھر ان من-گھڑت احادیث کو قران کے ساتھ ری-کنسائل کرنے کے لیے سنی اور شیعہ مترجموں نے ایات کے ترجمہ میں ڈنڈی مارنا شروع کر دی۔

قران کی کوئی ایت یہ نہیں کہتی کہ عیسی بدون باپ کے پیدا ہوئے۔ جب فرشہ نے مریم کو بشارت دی تو اس وقت وہ کنواری تھی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ بشارت کے بعد انہوں نے شادی ہی نہیں کی۔ ایت ٦٦:۱۲ میں مریم کے لیے أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا کے الفاظ ائے ہیں لفظ أَحْصَنَتْ کی ہی ایک اور کنوٹیشن ہے محصنہ۔ زنا کی سزا کے متعلق، سنی فقہ اور احادیث کی تمام کتابوں میں شادی-شدہ عورت کو محصنہ کہا گیا ہے۔ أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا کے معنی یہ ہیں کہ مریم نے عصمت کی حفاظت کرنے کے لیے شادی کی اور وہ محصنہ تھی۔ ادم اور عیسی کی مثال یہ بتاتی ہے کہ عیسی بھی دوسرے بنی-ادم کی طرح مٹی ہی تھے۔ قران بتاتا ہے کہ تمام انسان مٹی ہیں اور مٹی میں واپس جاتے ہیں۔ قران یہ بھی بتاتا ہے کہ ہر انسان روح-اللہ ہے

عیسائیوں کی گاسپلز، قران-مجید کے نازل ہونے سے تقریبا چار سو سال پہلے لکھی گيئں اور ان گاسپلز کے پرانے نسخوں میں بار بار نبی عیسی کو مریم اور جوزف یعنی یوسف کا بیالوجیکل بیٹا کہا گیا ہے۔ نبی عیسی کے دور کا مشہور تاریخ-دان جوزیفس بھی لکھتا ہے کہ سب لوگ جانتے تھے کہ عیسی مریم اور جوزف یعنی یوسف کا بیالوجیکل بیٹا ہے۔ گاسپلز کے مطابق مریم کے کم از کم سات بچے تھے اور ان سات بچوں میں پہلے بچے کا نام عیسی تھا۔ قران نے ایت ۳:۳٦ میں بھی مریم کے بچے کے متعلق نہیں بلکہ مریم کے بچوں “بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا” کا ذکر کیا ہےدین اسلام میں اتھاریٹی صرف اور صرف الله جَلَّ جَلَالَهُ کی کتاب ہے ۵:۴۴، ٦:۱۱۴۔ ملاں ملوانے مفطی اور امام، اتھاریٹی نہیں ہیں۔ قران، عدت کے دوران نکاح سے منع کرتا ہے اور جو ادمی قران کے حکام کے مخالف چلا وہ کافر ہو گیا اور اس کو سزا دینا ضروری ہے۔ اگر ایسے شخص کو سزا نہ دی جائے گی تو پھر سب لوگ عدت کے دوران نکاح کرنا شروع کر دیں گےاس لنک پر پڑھیے کہ امام شافئی اور امام مالک کون تھے۔ کیا وہ دونوں، رسول کے پیروکار تھے، یا شیطان کے شاگرد تھےقرآن کبھی بھی اپنی ہی آیات کو منسوخ نہیں کرتا لیکن قرآن سابقہ کتابوں کی فرسودہ شریعت کو منسوخ کرتا ہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ قرآن اپنی ہی آیات کو منسوخ کرتا ہے یقیناً اسے ابلیس نے گمراہ کر دیا ہے۔ آج کے اسلامی قانون کے تقریباً تمام اعلیٰ پروفیسروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ قرآن کبھی بھی اپنی آیات کو منسوخ نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ اسلام کے پروفیسر ڈاکٹر جان برٹن پی ایچ ڈی (ایک غیر مسلم) نے اپنی کتاب ایبروگیشن میں اس موضوع پر گہری تحقیق کی ہے، اور ان کے مطابق؛ قرآن اپنی آیات کو منسوخ نہیں کرتا۔ اس لنک پر اس عنوان پر ہمارا صفحہ پڑھیںاس پرانے ویڈیو میں جو مثال غامدی صاحب نے روزوں کے متعلق دی ہے بالکل وہ کسی ایت کے منسوخ ہونے کا ثبوت نہیں ہے۔ اس وقت کے، اسلام کے ٹاپ پروفیسرز جیسے کہ ڈاکٹر پروفیسر یاسر عودہ ہے نے بھی لکھا ہے کہ اس نے پورے حدیث لٹریچر کی تحقیق کی ہے اور اس کو ایک حدیث بھی صحیح نہیں ملی جو قران کی کسی ایت کے منسوخ ہونے کی بات کرتی ہو۔ یہ ساری کارستانی ان جاہل سنی اماموں کی ہے جو صحابہ کے بہت بعد میں وارد ہوئے۔ ایت ۲:۱۰٦ کو اگر ایت ۲:۱۰۵ کے ساتھ ملا کر سمجھا جائے تو بات صاف ہو جاتی ہے کہ ان ایات میں، پرانی کتابوں کی شریعت کی منسوخی کی بات ہو رہی ہے۔ غامدی صاحب کی پرابلم یہ ہے کہ وہ اپنے جاہل استادوں امین اصلاحی اور فراہی کو پغمبر سمجھ کر ان کی جہالت کو بھی اندھوں کی طرح فالو کرتے ہیں۔ چونکہ جاہل امین اصلاحی نے اپنی کتاب تدبر-قران میں لکھ دیا ہے کہ قران اپنی ایات منسوخ کرتا ہے تو اصلاحی کے یہ توہین-قران کے الفاظ، غامدی صاحب کے لیے حدیث بن گئے ہیں۔ حالانکہ، گو اصلاحی اور فراہی دوسرے جنوبی ایشیا کے ملاؤں سے قدرے بہتر تھے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دونوں فرشتے تھے اور انہوں نے غلطیاں نہیں کیں۔ قران تو بتاتا ہے بحثیت انسان، نبیوں سے بھی غلطیاں ہوئیں ۴۸:۲

ایک منطقی اور راشنل نقطہ یہ ہے کہ اگر قران-الحکیم کی کچھ ایات منسوخ ہوتیں تو نبی، ان ایات کی فکس تعداد صحابہ کو بتاتے۔ مگر کوئی سنی انفیڈل امام کہتا ہے کہ قران کی ۲۱۳ ایات منسوخ ہیں تو کوئی کہتا ہے کہ صرف پانچ منسوخ ہیں۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ ان جاہل اماموں نے قران کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے۔ جعفر نحاس لکھتا ہے کہ ۱۳۳ ایات منسوخ ہیں۔ مصری مولوی سیوطی لکھتا ہے کہ ۲۲ منسوخ ہیں۔ ابن الجوازی لکھتا ہے کہ ۲۴۷ منسوخ ہیں۔ دجال ابن سلامہ لکھتا ہے کہ ۲۱۳ ایات منسوخ ہیں۔ یہ لسٹ لمبی ہے۔ اور شاہ ولی-اللہ دہلوی لکھتا ہے ۵ ایات منسوخ ہیں۔ ایک انسان جس کا دماغ دس فیصد بھی صحیح کام کر رہا ہو ان اعداد-و-شمار سے سمجھ سکتا ہے۔ یہ ناسخ-منسوخ کی خرافات جاہل سنی اماموں کی پیداوار ہے۔ مگر یہ سچ غامدی صاحب کے دماغ میں گھسنے سے اس لیے قاصر ہے کیونکہ مسٹر غامدی کو ہر صورت میں اصلاحی اور فراحی کو فالو کرنا ہے۔

غامدی صاحب قران کو سمجھنے کی بجاۓ جاہل امین اصلاحی اور جاہل فراہی کو فرشتہ ثابت کرنے میں جٹے رہتے ہیں۔
مسٹر @azhariqbal1390
اس روزوں کی ایت کو یہاں پوسٹ کرو جو غامدی کے مطابق منسوخ ہے اور وہ ایت بھی پوسٹ کرو جو غامدی کے قریب ناسخ ہے۔ پھر میں اپ کو راشنل جواب سے بتاؤں گا کہ غامدی نے سفید جھوٹ بولا ہے۔ یہ ادمی قران کو نہیں سمجھتا، بس اپنی دکانداری چلا رہا ہے۔ اس کا مقصد قران کو سمجھنا ہے ہی نہیں بلکہ ماضی کے دو جاہل ملاؤں اصلاحی اور فراہی کو فرشتے ثابت کرنا ہے۔ پھر یہ بے-عقل ادمی کہتا ہے کہ عیسی کے مرنے کے بعد فرشتے عیسی کی لاش اٹھا کر اسمان پر لے گیے اور وہ لاش ۲۰۰۰ سال سے فریزر میں پڑی ہے۔ ان باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس ادمی کے پاس نہ کامن-سینس ہے نہ ہی قران کی سجھ، نہ ہی میٹافزکس کی سمجھ۔– اس بندے نے ایت ۲۰:۵۵ نہیں پڑھی جس میں الله جَلَّ جَلَالَهُ فرماتے ہیں کہ تم کو مٹی سے بنایا ہے اور تم مٹی میں ہی واپس جاؤ گے، اسمان پر نہیں۔ بلکل ایسے ہی تورت جنیسز ۳:۱۹ میں لکھا۔ ۲۰:۵۵ مِنْهَا خَلَقْنَـٰكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ۔
موت کا ایک سٹینڈرڈ قانون ہے قُلْ يَتَوَفَّىٰكُم مَّلَكُ ٱلْمَوْتِ ٱلَّذِى وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ ۳۲:۱۱ کہ موت کے بعد مٹی کا جسم واپس مٹی میں جاتا ہے اور جو روحانی انسان جو ماں کے رحم میں بھیجا گیا تھا زندگی کے امتحان ٦۷:۲ کے بعد مر جاتا ہے اور موت کے بعد اسی روح کو، الله جَلَّ جَلَالَهُ کی طرف اٹھا لیا جاتا ہے ٦:۹۴، ۳۲:۱۱، ۳:۵۵۔ زندہ یا مردہ مٹی کا جسم الله جَلَّ جَلَالَهُ کی طرف نہ تو جاتا ہے نہ ہی جا سکتا ہے کیونکہ مٹی کا جسم الله جَلَّ جَلَالَهُ کے روحانی-ریلم میں داخل ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ دنیا اور ہے اور یہ دنیا اور۔ اس مٹی کے جسم کی انکھ، الله جَلَّ جَلَالَهُ کو نہیں دیکھ سکتی ۷:۱۴۳

وَلَمَّا جَآءَ مُوسَىٰ لِمِيقَـٰتِنَا وَكَلَّمَهُۥ رَبُّهُۥ قَالَ رَبِّ أَرِنِىٓ أَنظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَن تَرَىٰنِى وَلَـٰكِنِ ٱنظُرْ إِلَى ٱلْجَبَلِ فَإِنِ ٱسْتَقَرَّ مَكَانَهُۥ فَسَوْفَ تَرَىٰنِى فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُۥ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُۥ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًا فَلَمَّآ أَفَاقَ قَالَ سُبْحَـٰنَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا۠ أَوَّلُ ٱلْمُؤْمِنِينَ

الله جَلَّ جَلَالَهُ ایت ۷:۱۴۳ میں فرماتے ہیں۔

اور جب موسیٰ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر (کوہ طور) پر پہنچے اور ان کے پروردگار نے ان سے کلام کیا تو کہنے لگے کہ اے پروردگار مجھے (جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار (بھی) دیکھوں۔ پروردگار نے کہا کہ تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے۔ ہاں پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو اگر یہ اپنی جگہ قائم رہا تو تم مجھے دیکھ سکو گے۔ جب ان کا پروردگار پہاڑ پر نمودار ہوا تو (تجلی انوارِ ربانی) نے اس کو ریزہ ریزہ کردیا اور موسیٰ بےہوش ہو کر گر پڑے۔ جب ہوش میں آئے تو کہنے لگے کہ تیری ذات پاک ہے اور میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور جو ایمان لانے والے ہیں ان میں سب سے اولجناب حافظ صاحب: نبی عليه السلام اور تمام صحابہ نے اپنے پیچھے سنت، احادیث، اسباب-نزول، سیرت، فقہ اور تفسیر کا کوئی نسخہ نہیں چھوڑا۔ اس قسم کی تمام کتابیں سنی اور شیعہ اماموں نے فورج کی ہیں۔ ہم نے یہ ساری کتابیں پڑھی ہیں۔ ان کتابوں کی روایات اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ ان کتابوں کے مصنف سبائی باطنی تحریک کے جیٹ بلیک منافق تھے کیونکہ ان کتابوں میں دی گئی بہت ساری کہانیاں نہ صرف قرآنی قوانین اور اخلاقی ضابطوں کے بلکل خلاف ہیں بلکہ ان کی کہانیوں میں نبی محمد عليه السلام اور قرآن کی بار بار توہین بھی کی گئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ابلیس کی پروموٹ کی ہوئی ایسی من گھڑت کتابیں اس قرآن کی وضاحت کیسے کر سکتی ہیں، جو قران اپنی تصریف کے ذریعے خود اپنی تفسیر کرتا ہے؟ الله جَلَّ جَلَالَهُ، ایت ۱۵:۹ میں فرماتے ہیں کہ وہ قران کے محافظ ہیں مگر پارسی منافق امام ابن-ماجہ ۱۹۴۴ میں لکھتا ہے کہ قران کی کچھ ایات کوئی بریلوی یا دیوبندی بکری کھا گئي ہے۔ گویا کہ پارسی منافق-امام، ابن-ماجہ یہ بتا رہا ہے کہ وہ بکری اس ذات سے بھی زیادہ طاقتور تھی جس ذات نے قران کی حفاظت کا ذمہ لیا ہوا ہے۔ تو، ان کی خرافات جنہیں انہوں نے احادیث کا نام دے رکھا ہے کیا ایسے قران کی تفسیر کرتی ہیں؟ قران اپنی تصریف ٦:۱۰۵ کے ذریعے اپنی تفسیر خود کرتا ہے ۲۵:۳۳، قران کو ان کی من-گھڑت کتب-خرافات کی کوئی ضرورت نہیں۔جناب مفتی صاحب: براہ کرم جہالت مت پھیلائیں۔ قرآن مکمل ہے ۱٦:۸۹، اور مفصل ہے ٦:۱۱۴، اور کافی بڑی کتاب ہے۔ لیکن قرآن نے کبھی قبر میں کسی عذاب کی بات نہیں کی اور نہ ہی قرآن یہ بتاتا ہے کہ فرشتے میت سے سوال کریں گے جو صرف خاک ہے یعنی مٹی ہے ۲۰:۵۵ مِنْهَا خَلَقْنَـٰكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ، اور خاک یعنی مٹی، نہ تو عذاب محسوس کرتی ہے اور نہ ہی فرشتوں کے سوال سنتی ہے۔ جب روح (اصل انسان) نکل کر چلی گئی تو باقی صرف مٹی کی ڈمی رہ جاتی ہے جس کو قبر میں اس لیے دفنا دیا جاتا ہے تاکہ بدبو نہ پھیلے ۳۲:۱۱۔ تم ملاؤں اور مفتیوں کی عقل کیا گھاس چرنے چلی گئی ہے کہ ایک عام سی بات بھی تمارے ڈم دماغ نہیں سمجھ پاتے؟ جناب مفتی: براہ کرم جہالت مت پھیلاؤ۔ قیامت کے دن اس قسم کی فرقہ-وارانہ جہالت پھیلانے پر اپ کو سزا بھی مل سکتی ہےایک جاہل سنی کو، ہمارہ مدلل راشنل جواب مندرجہ ذیل ہے

اپ جیسے لوگ جان بوجھ کر اپنے-اپ کو دھوکا دیتے ہیں اپنے اپ سے جھوٹ بولتے ہیں اور دوسروں سے بھی جھوٹ بولتے ہیں۔ قران کی سورہ ۸۰ میں لکھا ہے کہ بِأَيْدِى سَفَرَةٍ۔ کاتب وحی نے قران لکھا۔ مگر صحابہ نے اپ کی سنت اور حدیث کی من-گھڑت کتب نہیں لکھيں، جناب۔ سنی فرقہ کی چھ اور شیعہ کی چار کتب، صحابہ نے نہیں بلکہ اپ کے پارسی ایرانی سوڈو-اماموں بخاری وغیرہ نے نبی کی وفات کے ۲۵۰ سال بعد اس وقت لکھیں جب خاتم الأنبياء فوت ہو چکے تھے، چار خلفاء فوت ہو چکے تھے اور سب کے سب صحابہ بھی فوت ہو چکے تھے، اور ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں تھا جو بخاری کی کہانیوں کو پرکھ کر کہے کہ یہ روایت صحیح ہے یا یہ روایت صحیح نہیں ہے۔ ان پارسی اماموں نے سنی-سنائی کہانیاں اکٹھی کیں، اور کچھ کو خود فورج کیا– اور جو انسان، حدیث کا متن گھڑ سکتا ہے وہ اس کی اسناد بھی اسانی سے گھڑ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم سنی فرقہ کی کتاب ص-مسلم میں مندرجہ ذیل سنا-سنایا قصہ پڑھتے ہیں، اس نے گاما سے سنا، اس نے ماجا سے سنا وغیرہ :

ابوبکر بن ابی شیبہ نے کہا، اسمائیل بن علیہ نے کہا، زھیر بن حرب نے کہا۔ اسمائیل بن ابراھیم نے کہا، اس نے یونس سے سنا، اس نے حمید بن ہلال سے سنا، اس نے عبداللہ بن صامت سے سنا، اس نے ابی زر سے سنا کہ رسول نے کہا کہ کالے کتے شیطان ہیں، اور اگر کھوتا، عورت اور کالا کتا نمازی کے آگے گزرے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ (ملاحظہ: صلاۃ، نماز نہیں ہے)

اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ کسی منافق نے ان اسناد کو گھڑ کر نبی-کریم کے نام سے جوڑ دیا کیونکہ کالے کتے کو شیطان کہنہ ایک مذاق ہے اور رسول ایسا کبھی بھی نہیں کہہ سکتے تھے۔ علاوہ ازیں اس منافق نے عورت جو کہ سب نبیوں کی ماں ہے کو کالے کتے اور کھوتے کی صف میں لا کھڑا کیا۔ یعنی

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود ایاز
نہ کوئی ڈاکو زرداری رہا نہ کوئی چور نواز

اپ کا اپنا امام غزالی احیا-العلوم میں لکھتا ہے کہ صحابہ اور پہلے تابعین، احادیث لکھنے سے نفرت کرتے تھے۔ عربی میں جو لفظ لکھا ہیں وہ ہے “یکرھون”، یعنی کراہت/نفرت۔ غزالی پھر لکھتا ہے کہ وہ سال عیسوی ۷۳۸ تھا جب ملاؤں نے احادیث لکھنا شروع کی۔ کولمبیا یونیورسی کا اسلامک-قانون کا پروفیسر سچاچٹ لکھتا ہے کہ وہ عیسوی سال ۷۲۲ تھا جب آئمہ نے نبی محمد کے نام پر سنت اور احادیث کی کہانیاں گھڑنی شروع کیں۔ پروفیسر سچاچٹ لکھتا ہے کہ اس سے پہلے تمام فقہی صرف قران سے ہی شریعت کے قانون بناتے تھے اور وہ کہتے تھے کوئی بھی ایسا اسلامی قانون جو قران سے نہیں بنایا گیا وہ ایرونی-س ہے یعنی غلط ہے ٦:۱۱۴، ۵:۴۴، ۱٦:۱۱٦۔ مصری سکالر محمد حسین ھیکل اپنی کتاب حیات-محمد میں لکھتا ہے کہ ملاؤں نے احادیث، عباسی خلیفہ مامون رشید کے دور میں لکھنا شروع کیں۔

قران ہم کو ایت ٦۸:۴ میں بتاتا ہے کہ خاتم الأنبياء کا اخلاق بہت اعلی تھا وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ۔ مگر صبائی باطنی تحریک کا ایرانی پارسی منافق بخاری لکھتا ہے کہ خاتم الأنبياء نے اپنے اپ کو پہاڑ سے گرا کر متعدد دفعہ خودکشی کرنے کی کوشش کی۔ یہی منافق لکھتا ہے کہ روزہ کے دوران اور بیوی کی ماہواری کے دوران، رسول بیوی سے مباشرت کرتے تھے یعنی سیکس کرتے تھے- مباشرت ۲:۱۸۷ ۔ قران ایسا کرنے سے منع کرتا ہے، کیا رسول، قرانی احکام کے خلاف جا سکتے تھے؟ کبھی نہیں ٦:۱۱۴۔

یہ صبائی باطنی تحریک کا منافق بخاری، نبی کریم اور قران-مجید کا مذاق اڑاتے ہوئے بخاری میں لکھتا ہے کہ نبی کو اس وقت تک وحی اتی ہی نہیں تھی جب تک نبی اپنی وائف عائشہ صدیقہ کا ثوب نہیں پہن لیتے تھے۔ عربوں کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ عورت کی اس قمیص کو ثوب کہتے ہیں جو گردن سے لے کر پاؤں تک لمبی ہوتی ہے مگر سنی فرقہ کے مترجم جن کا مرشد ابلیس-رجیم ہے اپنے دادے پارسی بخاری کا دفاع کرنے کے لیے لفظ ثوب کا ترجمہ یا تو کمبل کر دیتے ہیں یا کمرہ کر دیتے ہیں۔ قران، عربی زبان کی سب سے پرانی ڈکشنری بھی ہے۔ انسانوں نے پہلی عربی کی ڈکشنری قران-مجید کے نازل ہونے کے بہت بعد میں بنائی۔ قران کی ایت ۲:۱۸۷ میں لفظ مباشرت اپنی بیوی سے جماع کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اردو زبان، عربی اور فارسی کی بیٹی ہے، اور اردو کے سارے لٹریچر میں، لفظ مباشرت کے معنی عورت سے ہم بستری ہے۔ مگر اپنے پارسی امام بخاری کو بچانے کے لیے سنی فرقہ کے مترجم، لفظ مباشرت کا معنی جماع کی بجائے فانڈلک کر دیتے ہیں۔ نبیوں کی ماں عورت کو بخاری کھوتے، اور گھوڑے کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے اور کہتا ہے کہ گھوڑے عورت اور مکان میں برائی ہے۔ اور شیعہ فرقے کی من-گھڑت کتاب نہج-البلاغہ جو حضرت علی کی وفات کے ۳٦۰ سال بعد کسی نیم-پاگل شیعہ مولوی شریف-الراضی نے فورج کی تھی کہتی ہے کہ حضرت علی نے کہا کہ عورت ذات سکارپین ہے یعنی بچھو ہے اور اس بچھو سے بچ کے رہو۔ کیا حضرت علی جیسا صیانہ اور دانشمند صحابی عورت کے بارے میں ایسے الفاظ کہہ سکتا تھا جب کہ وہی عورت نبیوں کی ماں ہے، خاتم الأنبياء کی بیوی ہے خاتم الأنبياء کی پیاری بیٹی ہے، خاتم الأنبياء کی ماں ہے، حسن حسین کی ماں ہے؟ کیا خاتم الأنبياء اور علی، عورت کے متعلق ایسے الفاظ کہہ سکتے تھے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ ٦۸:۴

الله جَلَّ جَلَالَهُ، ایات ۱۵:۹، ۱۷:۸۸، ۴۱:۴۲ میں فرماتے ہیں کہ وہ خود قران کے محافظ ہیں اور ان کے قران کو کوئی برائی کسی طرف سے چھو نہیں سکتی لَّا يَأْتِيهِ ٱلْبَـٰطِلُ مِنۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِۦ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ۔ مگر سنی فرقہ کی کتب لکھتی ہیں کہ قران کی رجم کی اور عورت کے بالغ مرد کو دودھ پلانے کی ایات کوئی خبیث سنی-بکری کھا گئی ہے۔ یعنی یہ باطنی تحریک کا پارسی منافق ابن ماجہ ۱۹۴۴ میں سنیوں کو یہ بتا رہا ہے کہ وہ دیوبندی یا بریلوی بکری اس ذات سے بھی زیادہ طاقتور تھی جس نے قران کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے۔ پھر اس سنی فرقہ کے منافق آئمہ نے اس اپنی بکری کا دفاع کرنے کے لیے قران کے خلاف ایک اور خرافات گھڑ رکھی ہے جسے یہ ناسخ-منسوخ کہتے ہیں۔ موجودہ دور کے ٹاپ اسلامک پروفیسرز نے لکھا ہے کہ قران، اپنی ایات کو منسوخ نہیں کرتا۔ قران کیونکہ الله جَلَّ جَلَالَهُ کی نہ صرف اخری کتاب ہے بلکہ مُهَيْمِنًا بھی ہے ۵:۴۸، اس لیے قران نے پرانی کرپٹڈ کتب کی شریعت منسوخ کی ہے۔

رجم کی سزا دراصل یہودیوں کی من-گھڑت کتاب تالمود کی سزا ہے۔ رابی کعب-الحبار جیسے یہودی منافقین نے احادیث فورج کرکے رجم کی سزا اسلام میں داخل کی۔ زانی کنوارہ ہو یا شادی شدہ، قران میں اس کی سزا ۱۰۰ کوڑے ہے۔

اب اپ بھی یہ بات مانیں گے کہ چار خلفاء نے پیچھے صرف لکھا ہوا قران چھوڑا۔ اگر حدیث اور سنت بھی اسلام کا حصہ ہوتی تو چار خلفاء کو ایسی کتب لکھوانے میں کوئی مشکل نہیں تھی۔

بلکہ سنی فرقہ کی متعدد پرانی مشہور کتابوں میں لکھا ہے کہ خاتم الأنبياء نے کہا مجھ سے قران کے سوا کچھ نہ لکھو۔ ابوبکر نے احادیث سے منع کیا۔ عمر خطاب نے تو احادیث پھیلانے والوں کو قید میں ڈالا اور احادیث پر پابندی لگا دی اور ابوہریرہ پر بھی احادیث نریٹ کرنے کی پابندی لگا دی اور سنت بھی لکھنے سے انکار کر کے کہا: لا کتاب مہ کتاب-اللہ۔ میں کتاب-اللہ کے سوا دین میں کسی اور کتاب کی اجازت نہیں دوں گا۔ اپ سارے کتب کے حوالاجات ہماری حدیث اور سنت کی تارئخ کی ریسرچ میں پڑھ سکتے ہیں۔ قرانی ایات ٦:۱۱۴، ۵:۴۴ کے مطابق جو لوگ حدیث اور سنت کی من-گھڑت کتب کو فالو کرتے ہیں وہ کافر ہیں۔

أَفَغَيْرَ ٱللَّهِ أَبْتَغِى حَكَمًا وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ إِلَيْكُمُ ٱلْكِتَـٰبَ مُفَصَّلًا

وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْكَـٰفِرُونَ

اللہ اور رسول کی اطاعت کا معنی صرف اس کتاب کو فالو کرنا ہے جو الله جَلَّ جَلَالَهُ نے اپنے رسول کے ذریعے ہم تک بھیجی اور وہ کتاب، صرف قران ہے ٦:۱۹، ٦:۱۱۴، ۱۰:۱۵، ۲۸:۸۵۔ جو قران میں نہیں، وہ دین کا حصہ نہیں ہے

قُلْ أَىُّ شَىْءٍ أَكْبَرُ شَهَـٰدَةً قُلِ ٱللَّهُ شَهِيدٌۢ بَيْنِى وَبَيْنَكُمْ وَأُوحِىَ إِلَىَّ هَـٰذَا ٱلْقُرْءَانُ لِأُنذِرَكُم بِهِۦ وَمَنۢ بَلَغَ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ ٱللَّهِ ءَالِهَةً أُخْرَىٰ قُل لَّآ أَشْهَدُ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَٰحِدٌ وَإِنَّنِى بَرِىٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ

ہمارے پڑھے لکھے مسلمان نوجوانوں، بھائیوں، بیٹیوں اور بہنوں کو یہ ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ وہ ساتویں عیسوی صدی کے مسلمان خلفاء تھے جنہوں نے ایک ہزار سالہ پرانی ایرانی پارسی ساسانی شہنشاہیت کو ختم کیا۔ ایرانی شکست-خوردہ پارسیوں کو شکست کا بڑا رنج تھا حسد تھا کہ ان عربی بدوؤں نے کیسے ہماری ایک ہزار سالہ طاقتور شہنشاہیت کو ختم کر دیا۔ وہ شکست کا بدلہ لینا چاہتے تھے مگر میدان جنگ میں بدلہ لینے کے قابل نہیں تھے۔ وہ ایک انگریزی کی ضرب-المثل ہے کہ آگر تم دشمن کو شکست نہیں دے سکتے تو اس کی صفوں میں شامل ہوکر دشمن کا اندر سے دھڑن-تختہ کرو۔ بلکل ایسے ہی شکست-خوردہ ایرانی پارسیوں نے بھی کیا۔ پہلے انہوں نے کالے جھنڈے اٹھا کر ابو-مسلم خراسانی کے ذریعے عباسیوں سے ملکر بنو-امیہ کا تختہ الٹا۔ پھر عباسی دور میں ان کا اثر اتنا بڑھ گیا کہ خلیفہ ہارون رشید کے بچپن کا ٹیوٹر بھی ایک ایرانی پارسی تھا جو خاندان برامکہ کا ادمی تھا اور بعد میں، ہارون رشید کے سارے وزیر بشمول وزیراعظم بھی برامکہ خاندان سے تھے۔ ہارون کی ماں ملکہ الخیزرون، برامکہ کی پکی سپورٹر تھی۔ اسی دور میں ہی اڑنے والے کھوتے براق کی حدیث فورج کروا کر پانچ پارسی نمازوں کو اسلام میں داخل کیا گیا۔ صلاۃ، نماز نہیں ہے قران ایت ۲:۱۷۷ میں کہتا ہے کہ قبلہ کی طرف منہ کرکے پوجا۔پاٹ کرنا نیکی کا کام نہیں ہے لَّيْسَ ٱلْبِرَّ أَن تُوَلُّوا۟ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ ٱلْمَشْرِقِ وَٱلْمَغْرِبِ۔ صلاۃ پر یہ صفحہ ضرور پڑھیں بھی اور سمجھیں بھی۔ اسی دور میں مؤطا اور سنی فرقہ کی چھ اور شیعہ کی چار کتب-حدیث اور تفاسیر فورج کی گئی۔ سنی فرقہ کی چھ اور شیعہ کی چار کتب کے مصنف بھی شکست خوردہ ایرانی ہی تھے، ان کتابوں کی تصنیف کا مقصد، اسلام سے شکست کا بدلہ لینا تھا، ایک امت کو فرقوں میں تقسیم کرنا تھا، مسلمانوں کو ابلیس کے رستہ پر لگانا تھا اور مسلمانوں کو قران سے دور کرنا تھا۔ یہ باتیں ایرانی تاريخ-دان کاظم-زادہ نے بھی لکھی ہیں۔ انہوں نے بدلہ لینے کے لیے ایسی روایات گھڑیں جو قرانی قوانین اور اخلاقی ضوابط کے مخالف چلتی ہیں۔ اپ اس کا ثبوت اس صفحہ پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کی کتابوں میں بہت سی روایات ایسی ہیں جو کھل کر خاتم الأنبياء اور قران-مجید کی توہین کرتی ہیں، اور مسلمانوں کو ابلیس کا رستہ کو اختیار کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔

مثال کے طور پر: پارسی منافق بخاری نے سوچا کہ کیوں نہ سنی فرقہ کو تاقیامت اونٹ کا پلید موتر پلایا جائے تو اس نے ایک حدیث فورج کی جس میں بتایا کہ رسول نے مسلمانوں کو کہا کے اونٹ کا موتر پیا کرو۔ موتر، اونٹ کا ہو یا ادمی کا ہو یا گائے کا ہو وہ نجس ہے پلید ہے۔ قران، پچاس سے زیادہ ایات میں کہتا ہے کہ حلال طیب صاف کھاؤ پیؤ۔ کیا کسی برانڈ کے موتر یعنی پیشاب کو صاف۔ طیب اور ہلال کہا جا سکتا ہے؟ نہیں۔ کیا اپ کو پتہ ہے کہ سنی مشرک فرقہ کی بنیاد بھی ایرانی پارسیوں نے دسویں صدی عیسوی میں رکھی تھی؟ سنی اور شیعہ فرقے دراصل پارسی-مذہب، عیسائیت اور یہودیت کا ملغوبہ ہے۔ ان کی کتب، ان روایات سے بھری پڑی ہیں جن کو پارسی-مذہب، عیسائیت اور یہودیت کی کتب سے کاپی کیا گیا۔ الله جَلَّ جَلَالَهُ نے ایت ۲۲:۷۸ میں ہمارہ نام صرف مسلم رکھا ہے۔ قران-الحکیم فرقہ پرستوں کو اسلام سے خارج قرار دیتا ہے ٦:۱۵۹، اور فرقہ پرستوں کو کہتا ہے کہ تم کو اخرت میں عذاب ہو گا ۳:۱۰۵۔

ایک دفعہ ہم نے ایک ہندو مشرک اور ایک سنی مشرک کے درمیان ٹویٹر پر ایک دلچسپ ڈبیٹ واچ کی۔ اس ڈبیٹ میں سنی، ہندو کو کہہ رہا تھا کہ تم عجیب لوگ ہو، گائے کا پلید موتر پیتے ہو۔ تو ہندو نے جواب دیا کہ تم سنی بھی تو اونٹ کا موتر پیتے ہو اور چونکہ اونٹ کا وزن گائے سے زیادہ ہوتا ہے اس لیے تمہارہ موتر پینے کا گناہ ہم ہندوؤں سے بھی بڑا گناہ ہے۔ پھر سنی نے کہا کہ اونٹ کا موتر کینسر کا علاج کرتا ہے تو ہندو نے کہا کہ یہ جھوٹ ہے کیونکہ اگر اس میں کینسر کا علاج ہے تو پھر ہر سال لاکھوں لوگ کینسر سے کیوں مرتے ہیں جن میں اونٹ کا موتر پینے والے سنی بھی شامل ہوتے ہیں؟ پھر یہ سنی مشرک، ڈبیٹ میں ہندر مشرک سے شکست کھا کر بھاگ گیا۔

پروفیسر ڈاکٹر اسرار احمد خان جس نے مشہور علی-گڑھ یونیورسٹی سے پی-ایچ-ڈی کی ہوئی ہے بہت سے ممالک کی اسلامک یونیورسٹیوں میں دین-اسلام پڑھایا ہے۔ وہ اپنی کتاب “احادیت کو صحیح قرار دینے کا نیا معیار” میں لکھتے ہیں کہ یہ اونٹ کا موتر پینے والی حدیث من-گھڑت ہے اور اسے کسی منافق نے فورج کیا ہے۔ اپ ڈاکٹر اسرار احمد خان کی بخاری کے اونٹ کے موتر پر بحث اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر اسرار احمد خان نے رجم کی روایت اور عورت کے بالغ مرد کو دودھ پلانے کی روایت کو بھی کسی منافق کی فورجری قرار دیا ہے اپ پروفیسر ڈاکٹر اسرار احمد خان کی، رجم کی روایت کے بارے میں بھی، بحث اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔

اب ایک اور پارسی منافق ابو-داؤد نے یہ سوچا کہ کیوں نہ سنی فرقے کو، قیامت تک اس نہایت ہی غلیظ پانی سے وضو کروایا جائے جس پانی میں عورت کی ماہواری کا خون، مرے ہوئے کتے اور کوڑا، تیر رہا ہو۔ ابوداؤد نے یہ روایت ۰۰٦٦ فورج کی کہ ایک کنواں تھا جس میں عورت کے ماہواری کے خون والے پیڈ، بدبودار کوڑا اور مرے ہوئے کتے تیر رہے تھے مگر رسول نے کہا کہ اس کنواں کا پانی پاک ہے اور وضو کے لیے صحیح ہے۔ کیا اپ مان سکتے ہیں کہ رسول نے ایسا کہا تھا؟

پھر پارسی منافق بخاری کو خیال ایا کہ کیوں نہ مسلمانوں کو ہر قسم کا جرم اور گناہ کرنے کی ترغیب دی جائے تاکہ جہنم میں ان کی سیٹ پکی ہو جائے۔ تو بخاری نے یہ روایت فورج کی کہ ایک ادمی ۱۰۰ بندے قتل کرنے کے بعد بھی جنت میں چلا گیا (ملاحظہ- قیامت کے دن جو حساب کتاب ہونا ہے اس کے بغیر ہی وہ ۱۰۰ انسانوں کا قاتل جنت میں چلا گیا)۔ اس من-گھڑت روایت کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو بتایا جائے کہ قتل کرکے، ٹینشن نہیں لینے کا۔  قران-الکریم ۲۵ سے زیادہ ایات میں قتل کو بہت بڑا جرم قرار دیتا ہے اور قصاس کی سزا مقرر کرتا ہے۔

پھر بخاری لکھتا ہے کہ اگر ایک مرد اپنی سالی سے زنا کرتا ہے تو اس زنا کے بعد اس ادمی کا اپنی بیوی سے نکاح نہیں ٹوٹتا۔ اس روایت میں یہ پارسی منافق یہ کرپٹو میسج دے رہا ہے کہ اگر تم اپنی سالی سے ہر روز بھی زنا کرو گے تو ٹینشن نہیں لینے کا۔ پھر یہ منافق بخاری لکھتا ہے کہ اگر اپ نے ساری زندگی سب گناہ اور جرم کیے ہیں زنا کیے ہیں قتل کیے ہیں تو بھی ٹینشن نہیں لینے کا؛ بس مرنے سے پہلے، سنی فرقے کا من-گھڑت شرکیہ کلمہ طیبہ پڑھ لو، اور جنت میں تمہاری سیٹ پکی-

اور سنی-فرقے کی ایک دوسری کتاب ابن-ماجہ کہتی ہے کہ جنت میں داخل ہو کر ہر سنی-مشرک کو ۷۲ بیویاں ملیں گی اور ان ۷۲ میں سے ۲ حوریں ہوں گی اور باقی ۷۰ کا تعلق جہنم سے ہو گا۔ یعنی وہ بخاری کا قاتل-جنتی-سنی جو ۱۰۰ بندے قتل کر کے جنت میں داخل ہوا ہو گا، وہ بھی جہنم کی ۷۰ جہنمی عورتوں کے اوپر اور دو جنتی حوروں کے اوپر، دن رات چڑھا رہا کرے گا، اور یوں وہاں ٹھوکا-ٹھوکی نان-سٹاپ ہوگی- اب یہ نہیں مالوم کہ وہ قاتل-جنتی-سنی، ایسا کرنے سے پہلے، جہنم میں داخل ہو کر جلتی آگ میں ان ۷۰ جہنمی بیویوں پر چڑھے گا یا ایسا کرنے سے پہلے ان ۷۰ جہنمی بیویوں کو پے-رول پر جہنم سے جنت لے آئے گا اور ٹھوکا-ٹھوکی کے بعد پے-رول کی مدت ختم ہونے کے بعد ان ۷۰ جہنمی بیویوں کو واپس جہنم چھوڑ ائے گا۔ اگر ابن-ماجہ اج زندہ ہوتا تو یہ سوال ہم اس سیکسی امام سے ضرور پوچھتے۔ سنیوں کا یہ پارسی سیکسی امام ابن-ماجہ مزید لکھتا ہے کہ ان ۷۲ بیویوں کی شرمگاہیں نہایت سیکسی اور مزے-دار ہوں گی اور اس قاتل-جنتی-سنی کا پینس راؤنڈ-دا-کلاک کھڑا رہا کرے گا۔ واؤ۔ موجاں ایں موجاں۔ اپنے ایمان کو ترو-و-تازہ کرنے کے لیے اپ اس روایت کو خود مولویوں والی کانی انکھ سے نہیں بلکہ دونوں انکھوں سے اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن بچوں کو دور رکھیں۔ مگر اگر اپ سنی مولوی ہیں اور کانے دجال کے انے کی خرافات پر ایمان-کامل رکھتے ہیں تو اپ اس پاپندی سے آزاد ہیں۔ علاوہ ازیں ہمارہ مشورہ ہے کہ یہ ابن-ماجہ کی روایت پڑھنے سے پہلے ایک اضافی پاجاما یا شلوار یا پینٹ پاس ہی رکھ لیں۔ تاکہ اگر روایت پڑھتے وقت اپ کی پینٹ گیلی ہو جائے تو اپ پینٹ بدل سکیں۔قران-مجید متعدد ایات بالخصوس ایت ۲۱:۴۷ میں واضع کرتا ہے کہ قیامت کے دن اپ کے سارے اچھے اور برے اعمال کو گنا جائے گا ان کا وزن کیا جائے گا اور پھر فیصلہ ہو گا کہ اپ امتحان ٦۷:۲ میں پاس ہوئے یا فعل ہوئے۔ جنت جانا کوئی اسان کام نہیں ہے نیکیاں کمانی پڑیں گی۔ مگر سنی فرقہ کے منافق حدیث امام اپنی کتابوں میں بار بار مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو گناہوں کی ترغیب دیتے ہیں اور ان من-گھڑت روایات میں وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ساری عمر ڈٹ کر گناہ اور جرم کر لو مگر ایک چھوٹی سی نیکی تمہیں جنت میں لے جائے گی۔ مثلا ساری عمر ڈٹ کر گناہ اور جرم کر لو مگر مرنے سے پہلےسنی فرقہ کا بنایا ہوا کلمہ طیبہ پڑھ لو اور اپ کی جنت کی سیٹ پکی۔ ساری عمر ڈٹ کر گناہ اور جرم کر لو مگر زندگی میں ایک کھجور کی خیرات کردو اور اپ کی جنت کی سیٹ پکی۔ جنت جانے کا کیسا شارٹ-کٹ ہے۔ ساری عمر رنڈی کا پیشہ اختیار کر لو یعنی طوائف بن کر رہو مگر ایک دفعہ کسی کتے کو کنواں سے پانی نکال کر پلا دو اور اب تمہاری ساری زندگی کی چودا چدائی معاف، اور جنت کی سیٹ کنفرم۔ ساری عمر ڈٹ کر گناہ اور جرم کر لو پھر بھی ٹینشن نہیں لینے کا کیونکہ رسول، قیامت کے دن تمہارے سارے جرائم اور گناہ، شفاعت کے ذریعے معاف کرا دیں گے۔ بس بات ہی ختم۔ ان من-گھڑت احادیث کے مطابق تو مسلمانوں کو نیکی کے کام کرنے کی ضروت ہی نہیں۔ واہ واہ۔ ساری عمر ڈٹ کر گناہ اور جرم کر لو کیونکہ قیامت کے دن اپ کے سارے گناہ یہود اور نصاری کے سر پر رکھ دئیے جائیں گے اور پھر ابن-ماجہ والیاں تہاڈیاں ۷۲ بیویاں دے نال موجاں ایں موجاں۔ اپ دیکھ سکتے ہیں صبائی باطنی تحریک کے یہ منافق، اپنی ان خرافات کے ذریعے کس طرح شیعہ اور سنی-فرقہ پرستوں کو جہنم کی آگ کی طرف دھکیل رہے ہیں اور اس طرح وہ، جنگ قادسیہ کی شکست کا بدلہ لے رہے ہیں۔

ان شیعہ اور سنی جاہلوں کو کیوں نہیں سمجھ اتی کہ ان کے حدیث امام، صبائی باطنی تحریک کے منافق تھے۔ خاتم الأنبياء عليه السلام اور صحابہ رضي الله عنهم نے پیجھے صرف لکھا ہوا قران-الحکیم ہی چھوڑا۔ لہذا قران ہی کافی ہے ۱٦:۸۹، ٦:۱۱۴، اور جو قران میں نہیں ہے وہ اسلام کا حصہ نہیں ہے۔

یہ ابلیس کا چیلا، اپنی ایک بدبو-دار کتاب میں چھ برس کی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شادی والی جعلی حدیث کو سپورٹ کرنے کے اپنے دادا، پارسی ابن-ماجہ کی طرح قران پر حملہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ لوگ چھ سال کی بچی سے شادی پر تو اعتراض کرتے ہیں مگر قران پر اعتراض نہیں کرتے جس میں خضر نے سورہ الکھف میں ایک چھوٹے پچے کو مار دیا۔ اسی سنی-مشرک کے دادا، پارسی ابن-ماجہ نے ۱۹۴۴ میں لکھا ہے کہ قران کی رجم کی ایات کوئی خبیث سنی-بکری کھا گئی تھی۔ حالانکہ الله جَلَّ جَلَالَهُ ایات ۱۵:۹، ۱۷:۸۸، ۴۱:۴۲ میں فرماتا ہے کہ وہ خود قران کا محافظ ہے اور اس کے قران کو کوئی برائی بھی کسی طرف سے نہیں چھو سکتی۔ مگر اس جعلی ڈاکٹر کا پارسی دادا ابن-ماجہ لوگوں کو بتا رہا ہے کہ وہ خبیث سنی-بکری اس ذات سے بھی زیادہ طاقتور تھی جس نے قران کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے۔ پھر ان سنی-مشرکین نے اپنی اس خبیث سنی-بکری کا دفاع کرنے کے لیے قران کے خلاف ایک جھوٹ گھڑا جسے یہ ناسخ-منسوخ کہتے ہیں۔ اجکل کے بڑے بڑے اسلامی قانون کے پروفیسر بھی کہتے ہیں کہ قران اپنی ہی ایات کو منسوخ نہیں کرتا بلکہ پرانی کتابوں کی فرسودہ شریعت کو منسوخ کرتا ہے۔ اپ سارے حوالاجات ہمارے ناسخ-منسوخ یعنی ایبروگیشن کے صفحہ پر پڑھ سکتے ہیں۔ پھر یہ مشرک یہ کہتے ہیں کہ وحی، دو قسم کی ہے۔ حالانکہ قران بار بار کہتا ہے کہ صرف قران ہی الله جَلَّ جَلَالَهُ کی وحی ہے جو رسول پر نازل ہوا ۲۸:۸۵، ۲۵:۳۰، ٦:۱۹، ٦:۱۱۴، ۱۰:۱۵۔ اگر ایک اور قسم کی وحی بھی ہوتی تو چار خلفاء نے ایسی دوسری قسم کی وحی کی کتب کیوں نہیں لکھوائیں؟ اس جعلی ڈاکٹر کا دماغ اتنا چھوٹا ہے کہ جب ہم نے اس کے مشرکانہ ویڈیوز کے نیچے مدلل جواب لکھا تو اس نے ہمیں بلاک کر دیا۔

سورہ الکھف میں نبی موسی اور خضر کے واقعہ میں قران، ہم انسانوں کو ایک نہایت ہی دقیق نقطہ سمجھا رہا ہے اور وہ نقطہ یہ ہے کہ انسانی عقل محدود ہے جو ہر چیز کو نہیں سمجھ سکتی۔ قران سورہ الکھف میں اس پچے کی، کشتی کی اور دیوار کی مثال دے کر یہ سمجھا رہا ہے کہ کئی واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ انسانی دماغ کو بہت ہی برے لگتے ہیں مگر حقیقت میں، ان واقعات کے پیچھے، بھلائی مضمر ہوتی ہے جسے صرف وہی جانتا ہے جو اس کائنات کا نظام چلا رہا ہے۔ اب یہ کیا تک بنتا ہے کہ یہ جعلی احمق جاہل ڈاکٹر، چھ سال کی بچی کی شادی کا سورہ الکھف کے نبی موسی اور خضر کے واقعہ سے مقارنہ کرے؟ قران نے اس شخصیت کا نام نہیں بتایا جس نے نبی موسی کے ساتھ سفر کیا۔ یہ سنی ملاں ہیں جنہوں نے اس کو خضر کا نام دے رکھا ہے۔ سنی ملاں یہ بھی کہتے ہیں کہ ۴۰۰۰ سال بعد بھی وہ ان کا خضر، ابھی بھی زندہ ہے اور دریاؤں کے پانیوں میں رہتا ہے۔

چھ سال کی عمر میں حضرت عائشہ کی شادی والی جعلی حدیث کے سب کے سب ۱۳ نریٹر، کوفہ اور بصرہ کے شیعہ تھے۔ بخاری کا ایک بڑا استاد فضل بن دکین ایک کٹر شیعہ تھا۔ جن لوگوں نے اسلامی تاريخ پڑھی ہے وہ جانتے ہیں کہ شیعہ کیسے ابوبکر اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے خلاف گالیاں بکتے ہیں۔ ان دونوں کا مذاق اڑانے کے لیے شیعہ نے چھ سال کی عمر والی رویت گھڑی۔ ہم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی کی عمر کے بارے میں اپنے اس صفحہ میں گہرائی میں بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ یہ شیعہ کی کارستانی ہے۔

سفر کے اس اخر میں، الله جَلَّ جَلَالَهُ کے اس بندے نے جس کو سنی-ملاؤں نے خضر کا نام دے رکھا ہے، نبی موسی کو بتایا کہ جو کچھ اس نے سفر کے دوران کیا اس میں کیا بھلائی مضمر تھی۔ اب ہم اس دجال-الدجاجلہ جعلی ڈاکٹر زبیر سے پوچھتے ہیں کہ ۵۳ سالہ مرد کی چھ سال کی بچی سے شادی کرنے میں کونسی بھلائی اور دانشمندی مضمر ہے۔ کیا یہ جعلی ڈاکٹر اپنی نو سالہ بچی کو کسی ۵۳ سالہ شخص کے ساتھ ہمبستری کرنے کی اجازت دے گا؟

پھر اس ابلیس کے چیلے نے ایت ٦۵:۴ کے الفاظ لَمْ يَحِضْنَ کو مروڑ کر چھ سالہ بچی کے ساتھ شادی کو جائز کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ اسی ایت کے شروع کے الفاظ مِن نِّسَآئِكُمْ بتا رہے ہیں کہ اس ایت میں بات عورتوں کی ہو رہی ہے چھ سال کی بچی کی نہیں۔ قران، تین گروپوں کی بات کرتا ہے ۴:۷۵ مرد، عورت اور بچے ٱلرِّجَالِ وَٱلنِّسَآءِ وَٱلْوِلْدَٰنِ۔ ابھی ایک بچی اور ایک عورت میں کیا فرق ہے؟ فرق ماہانہ ماہواری ہے۔ کیا چھ سال کی بچی کو ماہواری اتی ہے؟ حالیہ سٹڈی جو سعودی عرب ميں کی گئی ہے اس کےمطابق ۹ سال کو تو ماہواری اتی نہیں۔ جتنا ہم عربوں کو جانتے ہیں یہ جعلی ڈاکٹر نہیں جانتا۔ عرب کبھی بھی چھ یا نو سالہ بچی کی شادی نہیں کرتے۔ ایت ٦۵:۴ میں جو الفاظ لَمْ يَحِضْنَ استعمال ہوۓ ہیں وہ ان عورتوں نِّسَآئِكُمْ کے لیے ہیں جنہیں کسی بیماری، جسمانی پرابلم یا فزیکل نقص کی وجہ سے ماہواری نہیں آ رہی۔

پھر یہ جعلی ڈاکٹر اپنی کتاب مکالمہ میں ایک ملحد غلام-رسول کا ذکر کرتا ہے کہ اس ملحد نے ابن-ماجہ کی ایک رویت کا غلط ترجمہ کیا تھا۔ لیکن وہ تو ایک ملحد تھا مگر تم شیعہ اور سنی مشرکین دعوی کرتے ہو کہ تم مسلمان ہو (حالانکہ نہیں ہو ۵:۴۴، ۳:۱۰۳، ۳:۱۰۵) تو پھر تم کیوں اپنے منافق حدیث اماموں کو بچانے کے لیے اپنی ہی بہت سی احادیث کا ترجمہ غلط کرتے ہو۔ تم تو بہت سی قرانی ایات کے ترجمہ میں بھی ڈنڈی مارتے ہو۔ غلام-رسول تو ایک ملحد تھا مگر تم مشرکین جو مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہو اس ملحد غلام-رسول سے لاکھ گنا بڑے ملحد ہو۔ قران، بیوی سے روزہ کے دوران اور ماہواری کے دوران مباشرت سے منع کرتا ہے مگر تمہاری من گھڑت احادیث کہتی ہیں کہ نبی، روزہ کے دوران اور ماہواری کے دوران بھی بیوی سے مباشرت کرتے تھے۔ قران سب سے پرانی عربی کی ڈکشنری بھی ہے اور قران میں مباشرت کے معنی جماع ہے ۲:۱۸۷ مگر تم سنی، اپنی احادیث میں، مباشرت کا ترجمہ فانڈلنک کر دیتے ہو۔ پھر باطنی تحریک کے منافق پارسی بخاری کی ایک رویت میں لکھا ہے کہ نبی کو اس وقت تک وحی اتی ہی نہیں تھی جب تک وہ حضرت عائشہ کا ثوب نہیں پہن لیتے تھے۔ عربوں کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ثوب عربی عورت کی اس لمبی قمیص کو کہتے ہیں جو گردن سے لے کر پاؤں تک لمبی ہوتی ہیں مگر سنی مترجم ثوب کا ترجمہ یا کمبل کر دیتے ہیں یا کمرہ کر دیتے ہیں۔ میں ایسی بہت سی مثالیں دے سکتا ہوں۔ یہ شیعہ اور سنی مشرکین، قران کی بہت سی ایات کے ترجمہ کی بھی تحریف کرتے ہیں جن میں یہ ایات بھی شامل ہیں، ۳:۱۴۴، ۳:۵۵، ۵:۱۱۷، ۴۳:٦۱، ۳۲:۱۱، ۳۳:۲۱، ۵۹:۷، ۵۳:۳، ۵۳:۴، ٦۵:۴، ۴:۱۵۷، ۴:۱۵۸، ۴:۱۵۹، ۲:۱۱۵، ۲:۱۷۷، ۲:۱۴۲

پھر یہ جعلی ڈاکٹر لکھتا ہے کہ مسلم اور کافر میں کیا فرق ہے۔ اس سوال کے جواب میں یہ ایت ۵:۴۴ کا کا ذکر کرنے کی بجائے اپنی من-گھڑت کتب احادیث کے حوالے دیتا ہے۔ قران کی متعدد ایات میں وآضع ہے کہ ججمنٹ یعنی شریعت کا قانوں صرف اور صرف اللہ عزّ وجلّ کی کتاب سے ہی بنایا جا سکتا ہے۔ اور مفتی-اعظم جو کہ قران ہے، ایت نمبر ۵:۴۴ میں فتوی دیتا ہے کہ وہ لوگ کافر ہیں جو اللہ عزّ وجلّ کی کتاب کے علاوہ درسری ملاں-ملوانوں کی کتب سے شریعت کا قانون بناتے ہیں؛ اور ایات ٦:۱۱۴ اور ایت ۵:۴۴ کے مطابق سنی اور شیعہ ۱۰۰ فیصد مشرک کافر ہیں کیونکہ ایات ٦:۱۱۴، ۵:۴۴ کا انکار کرتے ہوئے، ۱۲۰۰ سال سے، سنی اور شیعہ فرقے ان من-گھڑت کتب احادیث سے شریعت کے قانون بنا رہے ہیں جن کے صحیح ہونے کی تصدیق، ذاتی طور پر نہ رسول نے کی نہ ہی ذاتی طور پر چار خلفاء اور کسی صحابی نےکی۔

پھر یہ سوڈو ڈاکٹر، صحیح اور ضعیف روایات کے بارے میں بات کرتا ہے اور کہتا کہ پانچ پارسی نمازیں دین کا ستون ہیں اور مومن کی معراج ہیں؛ وہی معراج جس میں سنی فرقے کا اڑنے والا گھوڑا براق اپنے اوپر پانچ پارسی نمازین لاد کر لایا تھا۔ سچ یہ ہے کہ براق والی روایت سو فیصد من-گھڑت ہے اور اس کا پورا ثبوت اپ اس صفحہ پر پڑھ سکتے ہیں۔ اور پانچ پارسی نمازوں کا، قران کی صلاۃ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس صفحہ پر پڑھیں کہ قرانی صلاۃ کیا ہے

مسٹر نمبر-۲ جعلی ڈاکٹر: عقلی دلیل یہ ہے کہ کوئی بھی ایسی حدیث جس کی توثیق رسول نے ذاتی طور پر نہیں کی، یا کم از کم “ذاتی طور پر” چار خلفاء نے اس کی توثیق نہیں کی، ایسی روائت کو صحیح حدیث نہیں کہا جا سکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا “ذاتی طور پر” چاروں خلفاء نے کسی حدیث کو صحیح کہا؟ صحیح جواب ہے: نہیں، بالکل نہیں۔ لہذا؛ تمام احادیث غیر مستند “ضعیف” ہیں اور عقیدہ، شریعت اور پانچ نمازوں کو غیر مستند کہانیوں پر استوار نہیں کیا جا سکتا۔

نبی کی وفات کے ۲۵۰ سال بعد، باطنی تحریک کے منافق، پارسی بخاری کو کیا رسول نے کہا کہ تم حدیثوں کی کتاب لکھو؟ کیا بخاری کو الله جَلَّ جَلَالَهُ نے وحی کر کے حکم دیا تھا کہ تم حدیثوں کی کتاب لکھو؟ نہیں۔ پھر کس نے پارسی بخاری کو اتھاریٹی دی کہ تم یہ اپنی کتاب لکھو؟ کیا اپ کو معلوم ہے کہ کس نے، پارسی منافق بخاری کو کتاب لکھنے کی اتھارٹی دی؟ مولوی صاحب: اپ کو نہیں معلوم مگر ہمیں معلوم ہے۔۔ جس نے اتھاریٹی دی اس کا نام ابلیس ہے ۳۸:۸۲، ۲۸:۸۳۔ ان جعلی احادیث نے مسلم امت کا بیڑا غرق کر دیا اور امت کو فرقوں میں تقسیم کر دیا اور امت کمزور ہوتی چلی گئی۔ بخاری کی کتاب، قران پر بار بار حملہ کرتی ہے اور رسول کی بار بار توہین کرتی ہے۔ کیا ایک نیک پارسا مسلمان ایسی کتاب لکھ سکتا ہے جو رسول اور قران کی بار بار توہین کرے؟ نہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے بخاری، دراصل باطنی تحریک کا ایک پارسی منافق تھا

حتی کہ سنی فرقہ کی اپنی بیسیوں کتب میں لکھا ہے کہ رسول نے کہا، میری احادیث مت لکھو کیونکہ میں بھی تمہاری طرح کا ہی فانی انسان ہوں ۱۸:۱۱۰ اور غلطی کر سکتا ہوں اور گناہ کر سکتا ہوں ۴۸:۲۔ ابوبکر نے رسول کی وفات کے بعد لوگوں کو کہا احادیث مت پھیلاؤ اور تمام معاملات قران کے مطابق حل کرو۔ عمر بن خطاب نے تو احادیث پھیلانے والوں کے خلاف جہاد کیا۔ انہوں نے لوگوں سے ساری لکھی ہوئی احادیث کو جمع کر کے آگ میں جلا دیا اور کہا کہ یہ احادیت یہودیوں کی کتاب تالمود کی طرح ہیں۔ مگر پھر بھی تین صحابی لوگوں میں احادیث پھیلا رہے تھے۔ عمر بن خطاب نے نے ان تین صحابیوں کو تاحیات قید کر دیا۔ عمر بن خطاب نے سب گورنرز کو خط لکھا کہ ساری احادیث تلف کر دو۔ عمر بن خطاب نے سنت کو بھی لکھنے سے انکار کر دیا اور کہا: لا کتاب معہ کتاب-اللہ۔ – عمر بن خطاب نے کہا: ہمارے لیے قران ہی کافی ہے۔ خلیفہ چہارم، علی نے بھی ایک خطبے میں مسلمانوں کو کہا کہ سب احادیث تلف کردو کیونکہ تم سے پہلی اقوام اس لیۓ گمراہ ہو گئیں کیونکہ انہوں نے اپنے ملاؤں کی لکھی کتب-احادیث کو فالو کرنا شروع کر دیا اور الله جَلَّ جَلَالَهُ کی کتاب کو بھول گئے۔ ان کا اشارہ تالمود کی طرف تھا جو یہودی ریبائیوں نے فورج کی۔

قران ٦:۱۱۴، ۵:۴۴ کے مطابق جو لوگ الله جَلَّ جَلَالَهُ کی کتاب کے علاوہ دوسری انسان کی بنائی ہوئی کتب سے شریعت کے قوانین بناتے ہیں وہ کافر ہیں: وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْكَـٰفِرُونَ۔ اور سچ یہ ہے کہ سنی اور شیعہ فرقے ۳:۱۰۳، بارہ-سو ۱۲۰۰ سال سے قرانی ایات ٦:۱۱۴، ۵:۴۴ کا انکار کرکے کفر کے مرتکب ہو رہے ہیں یعنی ٦:۱۱۴، ۵:۴۴ کے مطابق وہ کافر ہیں: وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْكَـٰفِرُونَ

پھر یہ جعلی ڈاکٹر اس سوال پر بات کرتا ہے کہ خاتم الأنبياء بشر تھے یا نور تھے۔ پہلے یہ خود لکھتا ہے کہ قران کے مطابق سب انبیاء بشر تھے مگر اس کی بعد خیانت کرتے ہوئے، سنی مشرکین کی سپورٹ میں یہ جعلی ڈاکٹر قران کی ایت ۵:۱۵ سامنے لا کر ثابت کرنے میں جٹ جاتا ہے کہ خاتم الأنبياء نور بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ بات صاف ہے کہ ایت ۵:۱۵، بشر محمد کا نہیں بلکہ قران کا ذکر کر رہی ہے۔ ایات ۴:۱۷۴، ۴۲:۵۲، ٦۴:۸ میں بھی قران کو ہی نور کہا گیا ہے۔ جب قران کو نور کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ قران-الحکیم کوئی ۵۰۰ واٹ کا روشنی کا بلب ہے بلکہ یہاں نور کا معنی ہے کہ وہ ہدایت کی کتاب ہے اور مبین کتاب ہے جس میں کوئی کجی نہیں۔ اگر کوئی سنی مشرک، خاتم الأنبياء کو نور کہتا ہے تو پھر آٹھ ارب “مسلمان اور غیر مسلم” بھی نور ہوۓ کیونکہ قران بتاتا ہے کہ سب رسول دوسرے انسانوں کی طرح کے بشر تھے، لہذا سب دوسرے انسان بھی نور ہوئے۔ اس بات کا پھر کیا تک بنتا ہے کہ اخری نبی نور تھے؟ وہ بشر تھے، بشر کی طرح فوت ہوئے اور بشر کی طرح مدفون ہوئے اور ہر سائنسدان کو یہ پتہ ہے کہ انسانی جسم، قبر میں گل سڑ کر مٹی کے ساتھ مٹی ہو جاتا ہے ۲۰:۵۵۔ اب، یہ سنی مشرک، نبی محمد کو سپر-نیچرل ثابت کرنے کے لیے من-گھڑت احادیث سے ثابت کرنے میں جٹ جائیں گے کہ نبی کے جسم کو مٹی نہیں کھاتی۔ انہوں نے ہزاروں خرافات گھڑ رکھی ہیں۔

پھر یہ جعلی ڈاکٹر لکھتا ہے کہ چونکہ خدا نے نبی عیسی کو بغیر باپ کے پیدا کیا اور عیسی کو روح-اللہ کہا تو اسطرح تو نبی عیسی نور کہلانے کے زیادہ مستحق ہیں۔ ان جاہل ملاؤں کو بھلا کس ابلیس نے کہا کہ کتابیں لکھو؟ ادھر مولوی غامدی نے کتابیں لکھ ڈالی ہیں جن میں ادھا سچ اور ادھا جھوٹ ہے اور یہی حالت اس سوڈو ڈاکٹر زبیر کی ہے۔ ادھر طاہر پادری نے اور ندوی نے، مولوی وحیدالدین نے کتابوں کا انبار لگا دیا جوکہ سچ اور جھوٹ کی بدذائقہ کھچڑی ہیں۔ یہ جاہل مرزا انجینئر شائد مريخ کی مخلوق ہے۔ اب اس جعلی حافظ اور جعلی ڈاکٹر زبیر کو اتنا بھی نہیں پتا کہ قران کی متعدد ایات کے مطابق ہر انسان روح-اللہ ہے صرف عیسی ہی نہیں۔ ہم ہر ایک ایت کو جانتے ہیں۔ قران میں ایک ایت بھی یہ نہیں کہتی کہ عیسی بغیر باب کے پیدا ہوئے مگر سنی مترجم ایات کی تحریف کرتے ہیں اور ایات کی غلط انٹرپولیشن اور ایکسٹراپولیشن کرکے ایک نیا قصہ گھڑ لیتے ہیں۔ ایت ٦٦:۱۲ میں تو مریم کو احصنت کہا گیا ہے اور اسی لفظ کی ایک اور کنوٹیشن لفظ “محصنہ” ہے اور اس جعلی ڈاکٹر کو بھی پتہ ہے کہ فقہ کی تمام کتب میں زنا کی سزا دینے سے پہلے زانی عورت سے قاضی پوچھتا ہے کہ تم کنواری ہو یا محصنہ یعنی شادی شدہ ہو؟

قران کی ایت ۳:۳٦ میں مریم کے بچے کا نہیں بچوں کا ذکر ہے۔ کیا سب بچے مرد کے نطفہ کے بغیر پیدا ہو گئے؟ بائبل تو بتاتی ہے کہ نبی عیسی کے چھ اور بہن بھائی تھے اور عیسی کے والد کا نام جوزف یعنی یوسف تھا۔ اب کوئی سنی جاہل کہہ سکتا ہے کہ قران میں تو عیسی کے باب کا نام نہیں ہے، تو ہم اس سنی کو پوچھیں گے کہ قران میں تو نبی محمد کے والدین کا نام بھی موجود نہیں ہے، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی محمد بغیر والدین کے پیدا ہوئے تھے۔ عیسی کی مثال ادم جیسی سے یہاں مراد یہ ہے کہ جیسے بنی-ادم یعنی تمام انسانوں کو مٹی سے بنایا ہے اسی طرح عیسی کو بھی مٹی سے بنایا ہے کیونکہ انسانی جسم کی ترکیب میں وہی عناصر ہیں جو مٹی میں ہیں، قران نے کچھ ایات میں لفظ ادم کو جمع کے صیغے میں بھی استعمال کیا ہے۔ اگر حوا اور ادم کو یہاں لیا جائے تو عیسی کی پیدائش کی مثال حوا والے ادم سے نہیں ملتی کیونکہ اس ادم کی تو ماں بھی نہیں تھی مگر عیسی کی تھی۔ ملاؤں کی اصل ورجن-برتھ کی کہانی اس ایت کے گرد گھومتی ہے جس میں فرشتے نے مریم کو خبر دی کہ اس کے ہاں بچہ پیدا ہوگا تو مریم نے کہا کہ مجھے تو کسی مرد نے ٹچ نہیں کیا تو بچہ کیسے ہوگا؟ یہ بالکل عام سا جواب تھا کیونکہ جب مریم نے یہ جواب دیا اس وقت وہ غیر-شادی شدہ تھی مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ بچے کی خوش خبری کے بعد بی-بی مریم نے شادی ہی نہیں کی۔ جب زکریہ بوڑھے ہو گئے تو انہوں نے لاٹری ڈلوائی اور طبری کے مطابق وہ لاٹری جوزف کے نام نکلی۔ وہ اب اگر جوان مریم کو بغیر شادی کے گھر رکھتا تو شیطان کوئی برا کام بھی کروا سکتا تھا۔ لہذا ایسے خطرے سے بچنے کے لیے جوزف نے مریم سے شادی کر لی۔ وہ حاملہ ہوگئی اور نو ماہ بعد انہوں نے عیسی کو جنم دیا۔ اگر یہ معجزہ ہوتا تو نو ماہ حمل کی کیا ضروت تھی۔ نبی عیسی کی پیدائش پر اپ یہ صفحہ ضرور پڑھیں

پھر یہ مشرک جعلی ڈاکٹر اپنی گپوں کی کتاب مکالمہ میں لکھتا ہے کہ دین کی بنیاد قران اور حدیث پر ہے اور وہ دوسرا مشرک غامدی طوطے کی طرح یہ رٹ لگاتا رہتا ہے کہ دین کا ماخذ قران اور سنت ہے۔ ابھی ہم ان دونوں مشرکین سے پوچھتے ہیں کہ قران کی کونسی ایت میں لکھا ہے کہ دین کی بنیاد قران اور حدیث پر ہے یا دین کی بنیاد قران اور سنت پر ہے؟ قران میں الله جَلَّ جَلَالَهُ نے نبی کو ایت ٦:۱۱۴ میں کہا کہ سوائے اس کتاب قران کے کچھ اور فالو نہیں کرو أَفَغَيْرَ ٱللَّهِ أَبْتَغِى حَكَمًا وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ إِلَيْكُمُ ٱلْكِتَـٰبَ مُفَصَّلًا۔ اور ایت ۲۸:۸۵ میں نے الله جَلَّ جَلَالَهُ نے رسول کو کہا کہ تم پر یہ قران فرض کیا گیا ہے إِنَّ ٱلَّذِى فَرَضَ عَلَيْكَ ٱلْقُرْءَانَ لَرَآدُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ قُل رَّبِّىٓ أَعْلَمُ مَن جَآءَ بِٱلْهُدَىٰ وَمَنْ هُوَ فِى ضَلَـٰلٍ مُّبِينٍ۔ تو یہ مشرک جعلی ڈاکٹر یہ حدیثیں کہاں سے لے ایا؟ ہم کسی اور پیرے میں یہ پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ نبی کے دور میں اور خلفاء کے دور میں احادیث پر پابندی تھی اور خلیفہ عمر کے دور میں احادیث کو لوگوں میں پھیلانا ایک قابل-سزا جرم تھا۔ سارے حوالاجات اپ اس صفحہ پر پڑھ سکتے ہیں تو پھر اس مشرک زبیر نے اپنی من-گھڑت کتب احادیث کو دین کا حصہ کیسے بنا ڈالا؟ قران میں تو ” سنت رسول” کی اصطلاع ہی موجود نہیں ہے پھر یہ مشرکین، یہ سنت-رسول کی بدعا کہاں سے لے آئے؟ رسول اور چار خلفاء نے پیچھے صرف لکھا ہوا قران ہی چھوڑا۔ انہوں نے پیچھے ایک صفحہ بھی حدیث اور سنت کا نہیں چھوڑا، پھر یہ غامدی اور زبیر کہاں سے یہ سنت اور احادیث اٹھا لائے۔ پھر ان دونوں مشرکوں نے من-گھڑت سنت اور حدیث کو دین کا حصہ کیسے بنا ڈالا؟

اور غامدی کی مشرکانہ سنت کی طوطا رٹ کو غلط ثابت کرنے کے لیے ہم نے پورا صحفہ لکھا ہے اس صفحہ کو اس لنک پر ضرور پڑھیے۔ سچ یہ ہے دین کی بنیاد صرف اس مفصل ٦:۱۱۴ اور مکمل ۱٦:۸۹ کتاب پر ہے جو الله جَلَّ جَلَالَهُ نے اپنے اخری نبی محمد عليه السلام کے ذریعے ہم انسانوں تک بھیجی اور اس کتاب کا نام قران-مجید ہے۔ کوئی ایسا شریعت کا قانون، مناسک یا عبادت نماز-پوجا-پاٹ جس کی جڑ قران میں نہیں ہے وہ دین-اسلام کا حصہ نہیں ہے، اس لنک پر پڑھیں کہ قرانی صلاۃ کیا ہے۔ الله جَلَّ جَلَالَهُ کی کتاب کے ساتھ من-گھڑت سنت اور احادیث کی کتب کو شریک کرنا الله جَلَّ جَلَالَهُ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرانا ہے اور سنی اور شیعہ اور غامدی اور اس زبیر جیسے جاہل ۱۲۰۰ سال سے اس شرک کے مرتکب ہو رہے ہیں ۴:۴۸، قران متعدد ایات میں واضع کرتا ہے کہ رسول کے ذمہ صرف ایک کام تھا اور وہ کام تھا قران کو لوگوں تک پہنچانا۔ یہی وجہ ہے رسول اور صحابہ نے پیچھے صرف لکھا ہوا قران ہی چھوڑا۔ تو صاف پتہ چلتا ہے کہ رسوں محض الله جَلَّ جَلَالَهُ کی ایک ایجنسی تھے مَّا عَلَى ٱلرَّسُولِ إِلَّا ٱلْبَلَـٰغُ ۵:۹۹۔ لہذا صرف قران ہی اللہ اور رسول کی صحیح حدیث ہے ٦۹:۴۰، ۳۹:۲۳ إِنَّهُۥ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ، ٱللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ ٱلْحَدِيثِ۔ اور اللہ اور رسول کی اطاعت کا مطلب صرف اس کتاب کو فالو کرنا ہے جو الله جَلَّ جَلَالَهُ نے اپنے رسول کے ذریعے ہم انسانوں تک بھیجی اور وہ صرف قران ہے ٦:۱۹ قُلْ أَىُّ شَىْءٍ أَكْبَرُ شَهَـٰدَةً قُلِ ٱللَّهُ شَهِيدٌۢ بَيْنِى وَبَيْنَكُمْ وَأُوحِىَ إِلَىَّ هَـٰذَا ٱلْقُرْءَانُ لِأُنذِرَكُم بِهِ۔ یہ دونوں مشرک یہ بھی جھوٹ بولتے ہیں کہ سنت اور حدیث میں فرق ہے حالانکہ سنت کی ہر ایک کہانی کی بنیاد کسی من-گھڑت حدیث پر ہوتی ہے۔

اور اس سوڈو سکالر غامدی نے اپنا ایک نیا کٹا چھوڑ ہے اس کے اس کٹے کا نام ایسٹابلشڈ-ہسٹری ہے جو کہ انسانوں کی لکھی ہوئی ہے اور یہ ایک ڈسپیوٹڈ ٹرم ہے سبجیکٹ-و ٹرم ہے۔ اور دین کی بنیاد، تاريخ پر نہیں بلکہ کتاب-الہی پر رکھی جاتی ہے۔ پھر یہ مشرکین ایک اور من-گھڑت اصطلاع “متواتر یا تواتر” کے ذریعے واردات کرتے ہیں حالانکہ جب ایک غلط پریکٹس صدیوں مسلسل چلتی ہے تو وہ متواتر کہلانے لگتی ہے جس کی ایک مثال پانچ پارسی نمازیں ہے۔ عیسائی کہتے ہیں کہ ان کا تلثیث یعنی ٹرنیٹی کا مشرکانہ عقیدہ بھی متواتر ہے۔ علاوہ ازیں، حدیث لٹریچر کے ماہرین نے لکھا ہے کہ لاکھوں احادیث میں سے صرف اٹھ احادیث متواتر ہیں مگر ان اٹھ احادیث کے صحیح ہونے کی تصدیق ذاتی طور پر نہ رسول نے کی نہ ہی چار خلفاء نے کی۔ لہذا یہ اٹھ متواتر احادیث بھی جعلی احادیث ہو سکتی ہیں۔ اس متواتر کی بحث کو پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔

نئے کٹے چھوڑنا، مسٹر غامدی کی ہابی ہے۔ ایک اور نہایت ہی بچگانہ، جاہلانہ، احمکانہ اور پاگلانہ کٹا غامدی صاحب نے یہ چھوڑا ہے کہ ایت ۳:۵۵ میں نبی عیسی کے مرنے کے بعد فرشتے ائے تھے اور نبی عیسی کی لاش کو آسمان کے کسی اس دور کونے میں لے گئے تھے جس کونے کا اڈریس صرف غامدی صاحب کو اور ان کے استاد-محترم جاہل امین اصلاحی کو ہی پتا ہے۔ یاد رہے کہ الله جَلَّ جَلَالَهُ انسان سے اس کی شاہ رگ سے بھی قریب ہے ۵۰:۱٦۔ اور وہ لاش وہاں ۲۰۰۰ سال سے کسی فریزر میں پڑی ہے۔ غامدی کی ایسی احمکانہ باتیں پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ ادمی کسقدر جاہل ہے۔ نہ اسے قران کی سمجھ ہے نہ تاريخ کی اور نہ ہی میٹا-فزکس کی۔ قران ۲۰:۵۵ میں بتاتا ہے کہ تم انسانوں کا جسم مٹی سے بنا ہے اور مرنے کے بعد مٹی میں ہی جائے گا، اسمان پر نہیں۔ مرنے کی بعد صرف روح اٹھائی جاتی ہے ۳۲:۱۱؛ قران کی ایت ۴:۱۵۸ میں رفعہ کا معنی روحانی-بلندی ہے۔ ایت ۴۳:٦۱ میں پرونؤن إِنَّهُ، قران کی طرف اشارہ کرتا ہے، عیسی کی طرف نہیں۔ ایت ۴:۱۵۹ میں ہر یہودی اور نصرانی کی موت کا ذکر ہے۔ اور زبیر جیسے سنی جاہل یہ کہتے ہیں کہ عیسی زندہ اسمان پر اٹھا لیے گئے اور وہ دوبارہ نازل ہوں گے۔ ایسے قصے جعلی احادیث سے پھیلے ہیں۔ مگر قران تو کہتا ہے کہ گو عیسی صلیب پر وہ نہیں مرے مگر لمبی عمر ۵:۱۱۰ کے بعد مر گئے تھے ۵:۱۱۷، ۳:۵۵، ۳:۱۴۴ اور مردے واپس نہیں اتے۔ مگر قران کا سچ ماننے کی بجائے یہ ملاں، اپنا سارا غصہ جھوٹے نبی مرزا قادیانی پر نکال لیتے ہیں۔ پھر سنی اور شیعہ نے مہدی اور دجال کے قصے بھی گھڑ رکھے ہیں۔ نبی عیسی کی حیات پر اپ یہ صفحہ ضرور پڑھیں۔ نبی عیسی پر اس سے اچھا صحفہ اپ کو کہیں اور نہیں ملے گا۔ اس صحفہ میں بڑی گہرائی میں مدلل بحث کی گئی ہے

اپنی گپ-شپ شیطانی کتاب “مکالمہ” میں یہ مشرک کذاب جعلی ڈاکٹر، زبیر، سنی فرقہ کی صدیوں پرانی وہی رٹی-رٹائی منترا کو خوب خباثت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ “قرآن-مجید اور سنت ہمیں اللہ کے رسول سے قطعی خبر کے ذریعے سے ملے ہیں ۰۰۰ اور اس کے علاوہ کوئی ثبوت نہیں کہ اج کا قران وہی قران ہے جو نبی محمد پر نازل ہوا تھا”۔ حالانکہ قران کے اندر لکھا ہوا ہے کہ قران نازل ہونے کہ بعد لکھا جاتا تھا ۸۰:۱۲، ۸۰:۱۳، ۸۰:۱۴، ۸۰:۱۵، ۸۰:۱٦۔ اور اس لکھے ہوئے قران کے عربی کے ٹیکسٹ کو حافظ یاد بھی کر لیتے تھے۔ اس طریقہ کو ڈبل-پری-زر-ویشن کہتے ہیں کیونکہ آگر کوئی ٹیکسٹ کو بدلے، تو حافظ اس تبدیلی کو پکڑ لے۔ اسی طریقے سے الله جَلَّ جَلَالَهُ نے قران کو محفوظ بنایا ہوا ہے ۱۵:۹، ۱۷:۸۸، ۴۱:۴۲۔ پھر اس مشرک کی خباثت کا اندازہ اپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ ان سنیوں کی اپنی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ لکھا ہوا قران، نبی کی زندگی میں موجود تھا۔ حتی کہ اس مشرک کے پارسی مامے، بخاری کی کتاب میں بھی لکھا ہے کہ جب نبی کی فوتگی کے بعد صحابہ، نبی کے کمرہ میں داخل ہوئے ان کو ما بین دفتین، قران کی کتاب کے سوا کچھ نہ ملا۔ انہی کے امام نووی نے اپنی کتاب فی-الحروف والاصوات میں لکھا ہے کہ ما بین دفتین سے مراد قران ہے۔ ان کے اپنے امام طحاوی نے بھی لکھا کہ ما بین دفتین سے مراد صرف قران ہے۔ علاوہ ازیں ان کی اپنی کتب بخاری، مسلم اور مؤطا، اور کئی اور کتب میں بھی لکھا ہے کہ رسول نے کہا کہ سفر کے دوران، قران کو دشمن کے علاقہ میں مت لے جاؤ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر رسول کے زمانے میں قران، کتابی شکل میں موجود نہیں تھا تو وہ کیسے کہہ سکتے تھے کہ سفر کے دوران، قران کو دشمن کے علاقہ میں مت لے جاؤ؟ اس کے علاوہ، اسی سنی فرقہ کی کئی کتب مثلا مستدراک میں لکھا ہے کہ جب نبی-کریم نے حکیم بن حزام کو گورنر بنا کر یمن بھیجا تو اس کو کہا کہ قران کو صرف پاکيزگی کی حالت میں ٹچ کرنا۔ اب نقطہ یہ ہے کہ قران کو اسی وقت ہی ٹچ کیا جا سکتا ہے جب وہ کتابی شکل میں موجود ہو۔ اور الله جَلَّ جَلَالَهُ، قران کی ایت ۵٦:۷۹ میں بھی حکم دیتے ہیں کہ قران کو صرف پاکیزگی کی حالت میں ہی ہاتھ لگاؤ۔ یہ سارے آرگومنٹ صاف صاف بتاتے ہیں کہ نبی کے دور میں، قران، کتابی شکل میں موجود تھا۔ نبی کی موت کے بعد، خلفاء نے اسی قران کو کاپی کیا جو نبی کے پاس تھا۔ مگر چند سنی مشرک اماموں نے جنگ یمامہ جیسی الحاد روایات فورج اس لیے کیں تاکہ قران کا درجہ کم کرکے اس کو ان مشرکوں کی من-گھڑت کتب سنت اور احادیث کے برابر لا کھڑا کیا جائے، اسی لیے یہ حرام کے پلے مشرک، ہمیشہ یہ جھوٹ بار بار دھراتے ہیں کہ قرآن-مجید، اور سنت اور حدیث، ان کو اللہ کے رسول سے قطعی خبر کے ذریعے سے ملے ہیں۔

قران بار بار متعدد ایات میں دھراتا ہے کہ رسول کے ذمہ صرف قران کو لوگوں تک پہنچا دینا تھا۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ خدا نے رسول کو قران کی کمپی-لیشن مکمل ہونے سے پہلے ہی واپس بلا لیا ہو۔

ابن-اسحاق کی کتاب جسے ابن-ھشام نے ری-رائٹ کیا، حضرت عمر الخطاب رضي الله عنه کے اسلام قبول کرنے کے واقعہ میں بتاتی ہے کہ جب عمر گھر میں داخل ہوئے تو ان کی بہن قران سے تلاوت کر رہی تھی اور جب عمر نے کہا یہ کتاب مجھے دو تو بہن نے کہا کہ اس کتاب کو ٹچ کرنے سے پہلے غسل کرو۔ عمر نے غسل کرکے جب قران کی کتاب سے سورہ طہ پڑھی تو اسلام قبول کر لیا۔ یہ روایت بھی ظاہر کرتی ہے کہ نبی کی زندگی میں لوگوں کے پاس قران، کتابی شکل میں موجود تھا۔ سنی فرقہ کی اپنی کتب میں تیس سے زیادہ روایات میں لکھا ہے کہ قران کی کمپی-لیشن نبی کے دور میں کی گئی۔ ایسی سب روایات اپ ہمارے اس صفحہ پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کے مشرک منافق اماموں نے قران کا درجہ کم کرنے کے لیے ایسی روایات بھی فورج کیں جو بتاتی ہیں کہ قران پتھر پر، ہڈیوں پر اور چمڑے پر لکھا جاتا تھا۔ حالانکہ ان کی اپنی کتب میں لکھا ہے کہ جو خطوط نبی نے غیر-مسلم حکمرانوں کو لکھے وہ کاغذ پر لکھے۔ اور یہ بھی ان کی ہی رویت ہے کہ نبی نے کہا مجھ سے قران کے سوا کچھ نہ لکھو۔ اس سے ظاہر ہے کہ اس وقت کے لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ قران کی ایت ۲۵:۵ میں بھی لکھنے کا یعنی کتابت کا ذکر ہے۔ قران یہ بھی کہتا ہے کہ تجارتی معائدہ کو لکھ لیا کرو اور قران، وصییت لکھنے کے لیے بھی حکم دیتا ہے۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ نبی کے دور میں لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ عیسائیوں اور یہودیوں کی جو کتب، پہاڑ سینائی کے غاروں سے دریافت ہوئی ہیں وہ قران کے نازل ہونے سے تقریبا ۳۰۰ سال پہلے پارچامنٹ کے کاغذ پر لکھی گئی تھیں، تو پھر قران کے پارچامنٹ کاغذ پر لکھے جانے میں کیا رکاوٹ تھی؟ اپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کاغذ، قران-الحکیم کے نازل ہونے سے ۸۰۰ سال پہلے ایجاد ہو چکا تھا۔ يورپ کو، عربوں نے ہی کاغذ بنانا سکھایا تھا۔

ڈاکٹر پروفیسر جان-برٹن پی-ای-ڈی، دین-اسلام پڑھانے کا استاد تھا۔ وہ تھا بھی غیر-مسلم۔ وہ اپنی کتاب “دا-کولیکشن-اف-دا-قران” میں بہت لمبی اور گہری تحقیق اور بحث کے بعد یہ لکھتا ہے کہ جو قران، اج ہمارے ہاتھ میں ہے یہ وہی مصحف ہے جو نبی محمد کے ہاتھ میں تھا۔ برائے مہربانی قران کی کمپی-لیشن پر یہ ہمارہ صفحہ ضرور پڑھیں۔ شکریہ۔ یہ صفحہ پڑھنے کے بعد اپ کو پتہ چل جائے گا کہ یہ سنی امام کتنے بڑے جھوٹے ہیں اور یہ جعلی ڈاکٹر، زبیر نے اپنی کتاب مکالمہ میں کس بے-غیرتی کے ساتھ جھوٹ بولا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کذاب کو ہم بار بار جعلی ڈاکٹر کہہ رہے ہیں۔ ایسے کمینوں کے دل میں خوف-خدا ہے ہی نہیں۔ خدا اور اس کی کتاب کے یہ دشمن، ڈٹ کے جھوٹ بولتے ہیں اور اس جھوٹ پر اس لیے ڈٹے رہتے ہیں تاکہ دین میں وہ اپنی من-گھڑت سنت اور احادیث کی کتب کے لیے جگہ برقرار رکھ سکیں۔

سب لوگ جانتے ہیں کہ سنی فرقہ کی چھ کتب اور شیعہ کی چار کتب نبی کی وفات کے ۲۵۰ سال بعد شکست خوردہ پارسی ایرانی اماموں نے فورج کیں۔ ان کتب میں بہت سی ایسی روایات ہیں جو نبی کی اور قران کی توہین کرتی ہیں۔ اسی سنی فرقہ کی اپنی کتب میں لکھا ہے کہ نبی اور خلفاء کے دور میں احادیث پر پابندی تھی۔ اپ اس صفحہ پر ایسی تمام کتب کے حوالاجات پڑھ سکتے ہیں- اور سنت-رسول کے الفاظ پورے قران میں موجود ہی نہیں۔ یہ سنت-رسول کی بدعا ان سنی اور شیعہ مشرکین کی ايجاد ہے۔ ہم نے اس سنی اور شیعہ کی بنائی ہوئی جعلی سنت پر پورا صفحہ لکھا ہے جو اپ اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں

پھر یہ جعلی ڈاکٹر اپنی گپ-شپ کتاب “مکالمہ” میں لکھتا ہے کہ یہ شیعہ کا پراپیگنڈا ہے کہ ابوحنیفہ کوفی، شیعہ امام جعفرصادق کے شاگرد تھے۔ مگر شاہ-عبدالعزیز دہلوی تو شیعہ کے سخت خلاف تھے۔ شاہ-عبدالعزیز دہلوی نے تحفہ اتناشریہ میں لکھا ہے کہ ابوحنیفہ نہ صرف امام جعفرصادق کے شاگرد تھے بلکہ وہ زیدی شیعہ تھے۔ اور امام مالک بھی حعفرصادق کے شاگرد تھے۔ ابن-ندیم فہرست میں لکھتا ہے کہ اسلامی تاریخ کا سب سے بڑا فرآڈیا-مشرک امام شافی کٹڑ شیعہ تھا۔ ملا علی قاری کا بیٹا محسن اپنی کتاب “مجاہدالمنافق ابن حنبل” لکھتا ہے کہ ظاہری طور پر ابن حنبل اسلام کا رکھوالا لگتا تھا مگر دراصل وہ ایک کٹڑ صبائی شیعہ تھا۔ پہلے خلفاء-راشد، تین تھے، ابن-حنبل نے حضرت علی کو بھی خلفاء-راشدین میں شامل کر لیا۔ مصری مولوی ابن-حجر نے فتح-الباری میں لکھا ہے اور بدر-الدین عینی نے اپنی کتاب عمدہ قاری میں لکھا ہے کہ امام مالک اور فراڈیا امام شافئی اپنی بیویوں سے اس سوراخ سے سیکس کرتے تھے جہاں سے ٹٹی باہر اتی ہے۔ یعنی وہ دونوں قوم لوط کے برے لوگوں کی طرح تھے جو دبر سے سیکس کیا کرتے تھے۔ پارسی ابوداد لکھتا ہے کہ رسول نے کہا کہ جو مرد، بیوی سے اس کی دبر سے سیکس کرے، اس پر خدا کی لعنت ہو۔ تو ابو داؤد کے مطابق دونوں شافئی اور مالک لعنتی ٹھہرے۔ اور الکافی کی ایک رویت سے پتہ چلتا ہے کہ جعفر صادق پرلے درجے کا جاہل انسان تھا۔ سچ یہ ہے کہ دونوں مشرک فرقے سنی اور شیعہ ایک ہی کھوٹے سکے کے دو رخ ہیں، قران ۳:۱۰۳، ۳:۱۰۵، ٦:۱۵۹ کے مطابق یہ دونوں مشرک فرقے دین-اسلام سے خارج ہیں اور ۳:۱۰۵ کے مطابق، جہنم ان دونوں فرقوں کا انتظار کر رہی ہے۔ قران فرقوں کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ الله جَلَّ جَلَالَهُ نے سب نبیوں کے سچے پیروکاروں کا نام صرف مسلم رکھا ہے ۲۲:۷۸؛ سنی اور شیعہ نہی؛ حنفی اور حنبلی نہیں۔سچے مسلمان کو بھلا ان جاہل ملاؤں، سوڈو-سکالروں اور لونڈے لپاڑے جاہل فرقہ پرست اماموں اور سنت، حدیث، سیرت، تفسیر، اسباب-نزول کی جعلی کتب کے پيچھے بھاگ کر محدود سی زندگی کو برباد کرنے کی ضروت ہی کیا ہے۔ الله جَلَّ جَلَالَهُ نے قران-مجید اسان بنایا ہے ۵۴:۴۰۔ بنیادی عربی سیکھو؛ پھر قران کو صرف قران کی اپنی تصریف سے ہی سمجھو؛ اور پھر ایمانداری اور خلوص سے قران-الحکیم کے سب قوانین اور اخلاقی ضوابط کو فالو کرو؛ تو یہی خالص اسلام ہے۔ اور قران-الحکیم انشاءاللہ اپ کو جنت میں لے جائے گا ۱۷:۹ 

یہی خالص اسلام ہے

اگر اپ کی من-گھڑت کتب احادیث جسے اب اپ تاریخی واقعات کہہ رہے ہیں دین کا حصہ ہوتیں تو پھر چار خلفاء نے ایسی کتب کیوں نہ لکھوائیں؟ کس نے ان چھ پارسی ایرانی اماموں کو یہ اتھارٹی دی کہ وہ سنی فرقہ کی چھ کتابیں اس وقت فورج کریں جب نبی کی وفات کو ۲۵۰ سال گزر چکے تھے اور چھ کتابوں کی روایات کے متن اور اسناد کی تصدیق کرنے کے لیے ایک صحابی بھی زندہ نہ تھا؟ سچ یہ ہے کہ ان من-گھڑت احادیث کی کتب کو تاريخ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ ان کتب کی روایات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کتب کے مصنف دراصل باطنی تحریک کے منافق تھے کیونکہ ان کی روایات بار بار نبی کی اور قران کی توہین کرتی ہیں اور ایسی کتب صرف منافق ہی لکھ سکتا ہے۔ ہم نے ایسی تمام کتب پڑھی ہیں۔ مثال کے طور پر قران کہتا ہے کہ نبی محمد کا آخلاق اعلی درجے کا تھا مگر پارسی منافق بخاری لکھتا ہے کہ نبی محمد نے متعدد دفعہ خود کشی کرنے کی کوشش کی تھی۔ قران، مرد کو بیوی سے روزہ کے دوران اور بیوی کی ماہواری کے دوران جماع سے منع کرتا ہے مگر سنی فرقہ کی کتب کہتی ہیں کہ نبی محمد اس دوران بھی بیوی سے مباشرت یعنی جماع کرتے تھے۔ قران میں لفظ مباشرت جماع کے لیے ہی استعمال ہوا ہے اور قران عربی زبان کی سب سے پرانی ڈکشنری بھی ہے۔ خدا کہتا ہے کہ وہ قران کا محافظ ہے مگر سنی فرقہ کی کتب کے مطابق رجم کی ایات کوئی بریلوی یا دیوبندی بکری کھا گئی ہے۔ میں، ایسی ۵۰۰ اور مثالیں دے سکتا ہوں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ سنی فرقہ کی چھ کتابوں کے پارسی ایرانی مصنف درحقیقت باطنی تحریک کے منافق تھے۔ تو جب اپ ان من-گھڑت کتب احادیث کو فالو کرتے ہیں تو نبی کو نہیں بلکہ اپ منافقین کو فالو کرتے ہیں۔ نبی اور تمام صحابہ نے پیچھے صرف لکھا ہوا قران ہی چھوڑا لہذا ایک مسلم کے لیے قران ہی کافی ہے ۱٦:۸۹ ۔ شیعہ فرقے کی کتب بھی گند سے بھری پڑی ہیں۔ جو قران میں نہیں ہے وہ اسلام کا حصہ نہیں ہے۔ اللہ اور رسول کی اطاعت کا مطلب صرف یہ ہے کہ صرف اس الہامی کتاب کو فالو کیا جائے جو اللہ تعالی نے اپنے اخری نبی کے ذریعے ہم لوگوں تک پہنچائی اور وہ صرف قران ہی ہے٦:۱۹

ان سے پوچھو کہ سب سے بڑھ کر (قرین انصاف) کس کی شہادت ہے کہہ دو کہ خدا ہی مجھ میں اور تم میں گواہ ہے اور یہ قرآن مجھ پر اس لیے اتارا گیا ہے کہ اس کے ذریعے سے تم کو اور جس شخص تک وہ پہنچ سکے آگاہ کردوں کیا تم لوگ اس بات کی شہادت دیتے ہو کہ خدا کے ساتھ اور بھی معبود ہیں (اے محمدﷺ!) کہہ دو کہ میں تو (ایسی) شہادت نہیں دیتا کہہ دو کہ صرف وہی ایک معبود ہے اور جن کو تم لوگ شریک بناتے ہو میں ان سے بیزار ہوں

یہ داڑھی والا ادمی جس کا نام شائد ساحل عدیم ہے صرف ایک اور ابو-جہل ہے- قران ۵:۱۱۷، ۳:۱۴۴ میں صاف لکھا ہے کہ نبی عیسی مر چکے ہیں، ابھی اس ابوجہل ساحل عدیم کو یہ پوچھو کہ اللہ عزّ وجلّ کی کتاب بڑی ہے یا تمہاری وہ من-گھڑت احادیث جن کے صحیح ہونے کی تصدیق نہ خاتم الأنبياء نے کی، نہ چار خلفاء راشدین رضي الله عنهم نے کی اور ان کے صحیح ہونے کی تصدیق نہ ہی کسی صحابی نے کی۔ سنی فرقہ کی من-گھڑت احادیث کی چھ کتب اور شیعہ کی چار کتب، خاتم الأنبياء کی وفات کے ۲۵۰ سال بعد شکست-خوردہ سوڈو ایرانی اماموں نے اس لیے فورج کیں تھیں تاکہ مسلمانوں کو قران سے دور کرکے غلط ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جائے۔ ہم نے یہ ساری کتابیں بڑی ہیں۔ ان من-گھڑت کتابوں میں خاتم الأنبياء کی اور قران-الحکیم کی اتنی توہین کی گئی ہے کہ ایسی توہین رشدی، گیرٹ ولڈر، چارلی-ھیبڈو اور نوپر شرما نے بھی نہیں کی۔

اور بڑے بڑے مسلمان علماء نے بھی لکھا ہے کہ یہ براق والی اڑنے والے گھوڑے کی حدیث سو فیصد من-گھڑت ہے، اس ساحل عدیم جیسے جاہلوں کو اتنا بھی پتہ نہیں کہ جو مسجد اقصی ہم فلسطین میں دیکھتے ہیں وہ خاتم الأنبياء کی وفات کے ساٹھ سال بعد بنو-امیہ کے خلفاء نے تعمیر کروائئ تھی۔ لہذا براق کی حدیث من-گھڑت ہے۔ قبلاتین کی حدیث من-گھڑت ہے۔ اور وہ حدیث بھی من-گھڑت ہے جو کہتی ہے کہ مسلمان مسجد اقصی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے اور پھر حکم ایا کہ اب منہ کعبہ کی طرف موڑ لو۔ یہ سب کیسے ہو سکتا ہے جبکہ مسجد اقصی نبی کی وفات کے ساٹھ سال بعد تعمیر کی گئی تھی؟ اور سب تاریخ دان اس سچ کو جانتے ہیں۔ مسجد اقصی کے سامنے بورڈ بھی لگا ہے جو اس سال کا بتاتا ہے جب مسجد اقصی تعمیر کی گئی۔ خاتم الأنبياء کی زندگی میں فلسطین میں نہ کوئی مسجد اقصی تھی نہ ہی کوئی یہودیوں کا ٹیمپل تھا۔ خاتم الأنبياء کی پیدائس سے ۵۰۰ سال پہلے رومن جنرل ٹائٹس نے ان کا ٹیمپل مکمل مسمار کر دیا تھا۔ قران ایت ۱۷:۱ میں جس مسجد-اقصی کا ذکر کرتا ہے وہ سعودی عرب کے اندر ہی ہے اور مکہ سے ۴۳۷ کلومیٹر دور ہےRespoending to one Fanatic “@Neelam N” about the fable of Ascenstion and Return of Jesus
You were supposed to post your comments either in English or Urdu or Arabic. Assuming that you do not understand English, I will reply in Urdu concisely:

قران-محید نہایت ہی مبین کتاب ہے اور قران ہر نقطہ کو صاف صاف بیان کرتا ہے مگر بارہ سو سال سے جن لوگوں کا دماغ، لاکھوں من-گھڑت احادیث کے ذریعے، ملاؤں، اماموں، مفتیوں اور سوڈو-سکالروں نے خراب کر رکھا ہے وہ قران کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے اور اپنی جہالت کا سارا ملبہ جھوٹے نبی مرزا قادیانی پر ڈال دیتے ہیں۔

أَفَغَيْرَ ٱللَّهِ أَبْتَغِى حَكَمًا وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ إِلَيْكُمُ ٱلْكِتَـٰبَ مُفَصَّلًا

وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ تِبْيَـٰنًا لِّكُلِّ شَىْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ

قران کے مطابق، نبی عیسی کی موت صلیب پر نہیں ہوئی ۴:۱۵۷ مگر ایک لمبی عمر ۵:۱۱۰ (کھلا) کے بعد وہ مر گئے تھے ۵:۱۱۷ اور مردے واپس نہیں اتے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ نبی اور چار خلفاء نے پیچھے صرف لکھا ہوا قران ہی چھوڑا۔ انہوں نے ایک صفحہ بھی حدیث، سنت، فقہ، سیرت، اسباب-نزوں یا تفسیر کا پیچھے نہیں چھوڑا۔ یہ ساری حدیث، سنت، فقہ، سیرت، اسباب-نزوں اور تفسیر کی کتب، سنی اور شیعہ فرقوں کی بدعا ہیں انہیں کی ایجاد ہیں جن کا دین-اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قران ہی اسلام ہے۔ جس قانون، نماز، یا منسک کی جڑ، قران میں موجود نہیں ہے وہ اسلام کا حصہ نہیں ہے۔ قرانی صلاۃ کا پانچ پارسی نمازوں=پوجا-پاٹ سے دور کا بھی تعلق نہیں

ایت ۴:۱۵۸ میں لفظ رفعہ کے معنی درجہ بلند کرنا اور روحانی بلندی ہے، جسم کو اسمان کی طرف اٹھانا نہیں۔ ایت ۴:۱۵۹ میں موت کا لفظ ہر یہودی اور عیسائی کی موت کے متعلق ہے۔ عیسی کی مستقبل کی موت کے متعلق نہیں۔ ایات ۵:۱۱٦ اور ۵:۱۱۷ فعل-ماضی میں ہیں جو ظاہر کرتی ہیں نبی عیسی طبعی موت مر چکے ہیں۔ فلاں ادمی اج وفات پا گیا ہے یعنی مر گیا ہے۔ وفات کے معنی ایک بچہ بھی سمجھتا ہے- ایت ۴۳:٦۱ میں عیسی کا نام ہی نہیں ہے۔ اس ایت میں لفظ وَإِنَّهُۥ، قران کے لیے استعمال ہوا ہے عیسی کے لیے نہیں۔ ایت ۳:۱۴۴ کے مطابق خاتم الأنبياء سے پہلے سب رسول مر چکے ہیں لہذا عیسی بھی مر چکے ہیں

قران-الحکیم تو ایک ایک نقطہ کو سوفیصد کھول کر واضع کر دیتا ہے مگر جس بندے نے ابلیس کو اپنا پیرو-مرشد بنا لیا ہو وہ قران کو سمجھنا ہی نہیں چاہتا

اپ سب کو پتہ ہے کہ علامہ اقبال کتنا بڑا دماغ تھے۔ وہ عیسی کے اسمان پر جانے اور واپس انے کے قصے کو ایک من-گھڑت کہانی کہتے تھے۔ فقہ کے امام مالک، مولانا عبیداللہ سندھی، سرسید، ابوالکلام آزاد اور بہت سے اور سنی سکالر بھی عیسی کے اسمان پر جانے اور واپس انے کی کہانی کو من-گھڑت کہتے ہیںمحترم: سنی فرقہ کی دسیوں مشہور کتابوں میں لکھا ہے کہ:

خاتم الأنبياء نے لوگوں کو کہا کہ میرے سے سوائے قران کے کچھ نہ لکھو اور جس نے کچھ پہلے سے میرے سے قران کے سوا لکھ رکھا ہے اسے مٹا دے۔ نبی کے دور میں عرب لکھنے پڑھنے کے قابل تھے مگر، احادیث اور تفاسیر لکھنا منع تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ خاتم الأنبياء نے احادیث سے منع کیا۔

خاتم الأنبياء کی موت کے بعد، حضرت ابوبکر نے خطاب کیا اور کہا۔ جو لوگ محمد کی عبادت کرتے ہیں وہ جان لیں کہ محمد مر چکے ہیں اور جو لوگ الله جَلَّ جَلَالَهُ کی عبادت کرتے ہیں (یعنی اس کے قوانین کو فالو کرتے ہیں) وہ جان لیں کہ الله جَلَّ جَلَالَهُ زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ حضرت ابوبکر نے لوگوں کو کہا لاتحدثو۔ یعنی احادیث نریٹ نہیں کرو اور اسلام میں، فیصلے، صرف الله جَلَّ جَلَالَهُ کی کتاب کے مطابق کرو۔ اس سے ثابت ہوا کہ حضرت ابوبکر کے دور میں بھی احادیث غیر-قانونی تھیں۔

حضرت عمر نے تو گویا احادیث پھیلانے والوں کے خلاف اعلان-جنگ کر دیا۔ ابوہریرہ کو احادیث پھیلانے سے سختی سے منع کر دیا۔ سارے لوگوں کو ارڈر دیا کہ جس نے احادیث لکھ رکھی ہیں وہ انہیں میرے ہاں جمعہ کروا دیں۔ لوگوں نے حکم کی تعمیل کی اور سب ایسی تحریریں جمع کروا دیں اور سوچا کہ خلیفہ شائد ایک احادیث کی ماسٹر-کاپی تیار کرنا چاہتے ہیں مگر حضرت عمر نے ان سب کو کھلے میدان میں آگ میں جلا کر کہا کہ یہ احادیث یہود کی من-گھڑت کتاب مشنا تلمود کی طرح ہیں۔ حضرت عمر نے سب گورنروں کر لکھا کہ احادیث کو مٹا دو۔ مگر پھر بھی تین صحابہ ابھی تک لوگوں میں احادیث پھیلا رہے تھے۔ اپ نے ان تینوں کو بلا کر پوچھا، یہ کونسی رسول کی احادیث ہیں جو اپ لوگوں میں پھیلا رہے ہو؟ اس کے بعد حضرت عمر نے ان تینوں کو تاحیات قید میں ڈال دیا۔ ان کی رہائی صرف حضرت عمر کی شہادت کے بعد ہوئی۔ اس تاریخی روایت کو دھبی نے معتبر قرار دیا ہے۔ حضرت عمر نے نبی کی سنت لکھنے سے انکار کر دیا اور کہا خدا کی قسم، دین اسلام کے لیے قران کے سوا میں کسی اور کتاب کی اجازت نہیں دوں گا، اپ نے کہا: لا کتاب معہ کتاب-اللہ۔ اس سے ثابت ہوا کہ حضرت عمر کے دور میں بھی احادیث غیر-قانونی تھیں۔

خلیفہ عثمان نے ابوبکر اور عمر کی پالیسی جاری رکھی۔

حضرت علی نے ایک خطبہ میں لوگوں کو کہا کہ ساری احادیث مٹا دو کیونکہ پہلی قوموں کے ائمہ نے احادیث کی کتب بنائیں اور پھر لوگ الله جَلَّ جَلَالَهُ کی کتاب کو بھول گئے اور احادیث کے پیچھے پڑھ گئے۔ اس سے ثابت ہوا کہ حضرت علی کے دور میں بھی احادیث غیر-قانونی تھیں۔ اور احادیث اب بھی غیر قانونی ہیں۔

نبی اور صحابہ نے صرف لکھا ہوا قران چھوڑا، لہذا قران ہی اسلام ہے، ایسا کوئی مناسک، نماز پوجا-پاٹ اور شریعت کا قانون جس کی جڑ قران میں نہیں ہے وہ اسلام کا حصہ نہیں ہے۔ قران ایت ۲:۱۷۷ میں واضع کرتا ہے کہ نماز، نیکی نہیں ہے۔ اللہ اور رسول کی اطاعت کے معنی صرف یہ ہیں کہ اس کتاب کو فالو کیا جائے جو الله جَلَّ جَلَالَهُ نے اپنے اخری نبی کے ذریعے ہم تک بھیجی کیونکہ قران، متعدد ایات میں واضع کرتا ہے کہ رسول، الله جَلَّ جَلَالَهُ کے محض ایک نمائدہ تھے ان کے ذمہ صرف قران کو لوگوں تک پہنچانا تھا۔ نبی ابراہیم اور نبی محمد کی صحیح اسوۃ حسنہ قران کے اخلاقی اصولوں میں ضم ہے۔ جب اپ قران کو فالو کرتے ہیں تو اپ، دونوں، اللہ اور رسول کو فالو کرتے ہیں۔ اسی لیے حضرت عائشہ نے کہا تھا کہ قران۔ رسول-اللہ کا اخلاق ہے، القرآن فإن خلق رسول الله

قران ۱۷:۹
إِنَّ هَـٰذَا ٱلْقُرْءَانَ يَهْدِى لِلَّتِى هِىَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ ٱلْمُؤْمِنِينَ ٱلَّذِينَ يَعْمَلُونَ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا

یہ قرآن وہ رستہ دکھاتا ہے جو سب سے سیدھا ہے اور مومنوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں بشارت دیتا ہے کہ اُن کے لئے اجر عظیم ہے

ہم نے جتنے دلائل دیئے ہیں اپ ان کے حوالاجات کے لیے اصلی عربی-کتب کی فوٹو کاپی ہمارے “سنت اور حدیث کی صحیح تاریخ” کے صفحہ پر پڑھ سکتے ہیں۔Mr. Abu Hurairah who stayed with Prophet less than three years has narrated about 6000 so-called hadiths, but Four Caliphs who stayed with Prophet whole life narrated nothing. Do you not wonder! About 33% portion of Hadith Books of Sunni sect comprises narrations of Mr. Abu Hurairah. We are not saying this but we are just telling you what is written in several top books of Sunni sects. Please read Biography of Mr. Abu Hurairah at this link 

یو-ٹیوب پر ایک بی-بی کو جواب دیتے ہوئے۔
مجھے نہیں معلوم اپ انگریزی سمجھتے ہیں نہیں۔ میں نے اپنے کمنٹس میں پہلے ہی تفصیل کے ساتھ بات کی ہے۔ جنوبی ایشیا کے ملاؤں اور ان کے پیروکاروں کی یہ عجیب منطق ہے کہ وہ نبی عیسی کی طبعی موت ۵:۱۱۷ کو نقلی-نبی مرزا قادیانی سے جوڑ کر قران-الحکیم کے سچ سے راہ-فرار اختیار کرتے ہیں حالانکہ بارہ-سو سال پہلے فقہ کے دوسرے امام، امام مالک نے کہا تھا “مات-عیسی” یعنی نبی عیسی مر چکے ہیں سرسید، ابو-الکلام ازاد، عبیداللہ سندھی اور علامہ اقبال جیسے بڑے دماغ کے بزرگوں نے بھی کہا کہ نبی عیسی کے زندہ اسمان بر جانے اور پھر دوبارہ نازل ہونے کا قصہ عیسائیوں کی ایجاد ہے مگر ان کی وہ ایجاد، مسلمانوں میں بھی پھیلا دی گئی۔ سچ یہ ہے کہ خاتم الأنبياء اور تمام صحابہ نے پيچھے سوائے قران کے کوئی اور تحریر نہیں چھوڑی۔ اس لیے راشنلی، ہم کسی حدیث کو بھی صحیح کا درجہ نہیں دے سکتے۔ سنی فرقہ کی چھ کتابیں اور شیعہ فرقہ کی چار کتابیں خاتم الأنبياء کی وفات کے تین-سو سال بعد گھڑی گئیں۔ قران مجید کہتا ہے کہ نبی عیسی صلیب بر نہیں مرے ۴:۱۵۷ مگر ایک لمبی عمر ۵:۱۱۰ (كَهْلًا) پانے کے بعد طبعی موت مر گئے ۵:۱۱۷۔ اور مردے واپس نہیں آتے۔ یہی سچ ہے۔ قدیم عربی-لٹریچر کے مطابق، كَهْلًا اس عمر کی طرف اشارہ کرتا ہے جب انسان اتنا بوڑھا ہو جائے کہ اس کی جلد پٹری-فائی ہونے لگے اور یہ عمر نوے سال کے بعد اتی ہے۔
قران-الحکیم یہ بات صاف کر دیتا ہے کہ سارے نبی دوسرے فانی انسانوں کی طرح فانی انسان تھے اور وہ سب مر چکے ہیں ۳:۱۴۴، مرنے کے بعد اصلی انسان یعنی اس کی روح، اللہ تعالی کی طرف اٹھا لی جاتی ہے ۳۲:۱۱، ٦:۹۴ اور مردہ جسم یعنی مٹی کا خالی-پنجرا دوبارہ مٹی میں ہی دفنا دیا جاتا ہے قران کی ایت ۲۰:۵۵ میں الله جَلَّ جَلَالَهُ فرماتا ہے کہ تم کو مٹی سے بنایا اور واپس مٹی میں ہی جاؤ گے
مِنْهَا خَلَقْنَـٰكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ
ابھی قبر میں مدفون وہ خالی پنجرا نہ تو اپ کی نعتیں سنتا ہے نہ درود-و-سلام۔ اور خالی پنجرے کو منکر-نکیر کے سوالوں کا کیا تک بنتا ہے اور اس خالی پنجرے کو قبر کے عذاب کا کیا تک بنتا ہے؟ یہ ری کہانیاں من-گھڑت احادیث سے پھیلی ہیں- مہدی اور دجال کے قصے بھی من-گھڑت ہے۔ میں نے اپ کو سچ بتا دیا ہے اور باقی اپ کی مرضی ہے کہ اپ اس سچ کو مانتے ہیں کہ نہیں۔ والسلام

قیامت کے دن، یوم-حساب کے دن، اللہ جَلَّ جَلَالَهُ اور خاتم الأنبياء عليه السلام کو خوش کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ طریقہ ہے اس الہامی کتاب کے سب قوانین اور اخلاقی اصولوں کی دل-و-جان سے پیروی کرنا جو کتاب، اللہ جَلَّ جَلَالَهُ نے خاتم الأنبياء عليه السلام کے ذریعے ہم انسانوں تک بھیجی اور اس کتاب کا نام صرف قران-الحکیم ہے۔ اللہ جَلَّ جَلَالَهُ نے قران کو زبانی یاد کرنے کے لیے اور سمجھنے کے لیے آسان بنایا ہے ۵۴:۴۰ ۔ اگر کسی کو قران کی سمجھ نہیں آتی تو اس کی وجہ اس بندے کی جہالت ہے۔ جب اس کی جہالت دور ہو جائے گی تو اسے قران-الحکیم نہ صرف ایک آسان کتاب لگے گی بلکہ اسے قران-الحکیم دنیا کی سب سے خوبصورت کتاب بھی لگے گی۔ بڑی خوبصورتی کے ساتھ قران اپنی ہی تفسیر خود اپنی ہی تصریف سے کرتا ہے۔ آیات، ایک دوسرے سے ایسے جڑی ہوئی ہیں جیسے دماغ کے نیوران جڑے ہوئے ہیں۔ اور اس طرح، قران کی آیات اسی طرح ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں ۲۵:۳۳۔ سال ۷۲۲ عیسوی سے پہلے خاتم الأنبياء عليه السلام اور تمام اصحابہ رضي الله عنهم نے قران کو اسی طرح ہی اس کی اپنی تصریف سے ہی سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ خاتم الأنبياء عليه السلام اور تمام اصحابہ رضي الله عنهم نے پیچھے صرف لکھا ہوا قران ہی چھوڑا۔ ان سب نے ایک صفحہ بھی حدیث، سنت، سیرت، شان-نزول، فقہ یا تفسیر کا نہیں چھوڑا۔ یہ سب حدیث، سنت، سیرت، شان-نزول، فقہ یا تفسیر کی کتب، سنی اور شیعہ کی من-گھڑت پیداوار ہے۔ اور ان من گھڑت کتابوں کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قران، مندرجہ ذیل آیات میں بتاتا ہے کہ رسول کے ذمے صرف قران کو لوگوں تک صاف صاف پہنچا دینا ہے۔

39:41, 6:107, 29:18, 5:92, 5:99, 3:20, 24:54, 42:6, 42:48, 64:12, 16:64, 2:213, 39:41, 18:110, 28:56, 72:21, 2:272, 27:92, 50:45. 12:111, 16:89, 17:12, 6:114, 10:15, 6:19, 13:40, 3:80, 75:19

اور ان ایات سے صاف ظاہر ہے کہ رسول، اللہ جَلَّ جَلَالَهُ کی محض ایک ایجنسی تھے۔ لہذا، اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کا مطلب صرف اس الہامی کتاب کو فالو کرنا ہے جو اللہ جَلَّ جَلَالَهُ نے اپنے رسول کے ذریعے ہم انسانوں تک بھجی اور وہ کتاب صرف قران ہے

۔ لہذا یہ بات صاف ہو گئی کہ اللہ جَلَّ جَلَالَهُ کی صحیح حدیث اور رسول کی صحیح حدیث صرف قران ہی ہے ۳۹:۲۳، ٦۹:۴۰، ٦:۱۱۴۔
پورے قران میں “رسول کی سنت” کے الفاظ ہی نہیں۔ تو پھر، یہ سنی اور شیعہ ملاں، رسول کی سنت کہاں سے لے آئے؟ قران میں صرف اللہ جَلَّ جَلَالَهُ کی سنت کا ذکر ہے یا پھر ماضی کے بدکار لوگوں کی سنت کا ذکر ہے۔ قرانی آیات میں بتایا گیا ہے کہ رسول کسی انسان کی بھی سیدھے رستہ کی طرف راہنمائی نہیں کرسکتے بلکہ ان کا کام صرف کتاب-اللہ کو لوگوں تک صاف صاف پہنچا دینا ہے
ایت ۲:۲۷۲ میں اللہ جَلَّ جَلَالَهُ نے رسول کو کہا کہ اے رسول: لوگوں کو ھدایت دینا تمہارہ کام ہی نہیں ہے۔ ابھی ایک منطقی اور راشنل سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب رسول کا یہ کام ہی نہیں کہ وہ لوگوں کو ہدایت دے تو پھر ان من-گھڑت احادیث اور سنت کا کیا مقصد رہ جاتا ہے؟

آگر احادیث اور سنت دین کا حصہ ہوتیں تو رسول یا کم-از-کم چار خلفاء تو ضرور احادیث اور سنت کی کتب لکھواتے۔ مگر انہوں نے ایسی کوئی کتاب نہیں لکھوائی بلکہ سنی فرقہ کی مشہور دسیوں کتابوں میں لکھا ہے کہ خاتم الأنبياء عليه السلام کے دور میں اور خلفاء راشدین کے دور میں حدیث، سنت اور تفسیر کی کتب پر پابندی تھی۔ عمر خطاب رضي الله عنه نے تین اصحابہ کو تاحیات اس لیے قید میں ڈال دیا تھا کیونکہ وہ حدیثیں پھیلانے سے باز نہیں آرہے تھے۔ ان سب باتوں کا ثبوت اپ ہمارے اس صفحہ پر پڑھ سکتے ہیں

پھر یہ فرقہ پرست صدیوں سے بہت بڑا یہ جھوٹ پھیلا رہے ہیں کہ ان کی من-گھڑت احادیث، قران کی تفسیر کرتی ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ ان کی من-گھڑت احادیث ہر قدم پر قران کی مخالفت کرتی ہے اور اپ کو گمراہ کرتی ہیں۔ ہم يہاں اس کی صرف ایک مثال دیتے ہیں۔ اللہ جَلَّ جَلَالَهُ ایات ۱۵:۹، ۱۷:۸۸، ۴۱:۴۲ میں فرماتا ہے کہ وہ خود قران کا محافظ ہے مگر سنی فرقہ کی من-گھڑت احادیث یہ کہتی ہیں کہ قران سے رجم کی ایات غائب ہیں کیونکہ کوئی سنی-بکری رجم کی ایات کو کھا گئی تھی۔ یہ سنی امام اپ کو یہ بتا رہے ہیں کا ایک بکری اس ذات سے زیادہ طاقتور تھی جو ذات خود قران کی حفاظت کر رہی ہے۔ استغفراللہ- شیعہ فرقہ کی تفسیر کی کتاب برھان میں لکھا ہے کہ شیعہ کی من-گھڑت کتاب الکافی کے لعین مصنف يَعْقُوب ٱلْكُلَيْنِيّ نے کہا ہے کہ قران میں بڑی گڑبڑ ہوئی ہے یعنی تحریف کی گئی ہے۔ استغفراللہ۔ سچ یہ ہے کہ رجم والی احادیث، یہودی منافقین نے گھڑیں تھیں تاکہ ان کی کتاب تالمود کی رجم کی سزا اسلام میں ڈال دی جائے۔ قران میں ایک کنوارے زانی اور ایک شادی-شدہ زانی کی سزا، سو کوڑے ہے۔ قران میں زنا کی سزا بلکل بھی رجم نہیں ہے۔ ایسی بہت سی اور مثالیں اپ ہمارے اس صفحہ پر پڑھ سکتے ہیں

قران میں نبی ابراھیم عليه السلام اور نبی محمد عليه السلام کی أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ کا ذکر ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا نبی ابراھیم عليه السلام اور نبی محمد عليه السلام نے یا خلفاء راشدین نے پیچھے کوئی أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ کی تحریر چھوڑی؟ نہیں۔ مگر کیوں نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ قران کے قوانین اور اخلاقی ضابطوں میں رکھ دی گئی ہے۔ جب ایک مسلم قران کی پیروی کرتا ہے تو وہ نبی ابراھیم عليه السلام اور نبی محمد عليه السلام کی أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ کی بھی پیروی کر رہا ہوتا ہے۔ ایک مثال لیجیے۔ اگر ایک مسلم قرانی ایت ۲:۴۲ کا حکم مانتے ہوہے جھوٹ نہیں بولتا تو وہ خاتم الأنبياء کی أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ کو بھی فالو کر رہا ہوتا ہے کیونکہ تاريخ ہمیں بتاتی ہے کہ خاتم الأنبياء صادق اور آمین کے نام سے بھی مشہور تھے جس کے معنی ہیں سچا اور قابل-بھروسہ۔ اسی لیے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی ایت ٦۸:۴ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تھا کہ قران، رسول-اللہ کا اخلاق ہے۔ القرآن فإن خلق رسول الله

پھر یہ فرقہ پرست کہتے ہیں کہ نماز، روزہ، حج، وضو، زکوۃ وغیرہ کی تفصیل قران میں نہیں لہذا وہ ان چیزوں کی راہنمائی اپنی سنت اور احادیث کی من-گھڑت کتب سے لیتے ہیں۔ مگر پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ایمان کی تعمیر من-گھڑت کتب پر کرنا دانشمندی ہے؟ نہیں ہے۔ دوسرا نقطہ ہے کہ قرانی صلات کا ان پانچ ایرانی پارسی نمازوں سے ہے ہی نہیں جو اڑنے والے گھوڑے براق کی حدیث کو فورج کرکے دین میں داخل کی گیئں۔ قران میں روزہ صاف ہے کہ سحری سے مغرب تک۔ اور روزہ کے دوران بیوی سے ۰۰۰ نہیں کرو۔ قرانی حج میں حجر-اسود کو چومنا اور کعبہ کے گرد سات چکر لگانا اس لیے موجود نہیں ہے کیونکہ یہ مناسک مشرکین-مکہ کے حج کا حصہ تھیں۔ پورا وضو قران کی ایت ۵:٦ میں موجود ہے۔ صلات کے اجتماع میں داخل ہونے سے پہلے وضو یا غسل کرنا ضروری ہے۔ زکوۃ، اسلامی نظام کا اقتصادی-سسٹم ہے اور اس سسٹم میں ٹیکس ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ قران نے اس ٹیکس کی ڈھائی-فیصد کی شرح اس لیے فکس نہیں کی تاکہ اسلامی-شوری اس ٹیکس کو حالات کی روشنی میں بدل سکے ورنہ ڈھائی-فیصد کی شرح فکس کر دینا کیا مشکل تھا اللہ جَلَّ جَلَالَهُ کے لیے؟ اگر اپ انگریزی زبان سمجھتے ہیں اور اپ کو ہمارہ یہ رئیسی صفحہ ضرور پڑھنا چاہیےPlease note: if through Quran’s own Tasreef, we precisely analyze all those verses which are relevant to Hajj directly and indirectly; it becomes quite clear that four sacred months are also months of Hajj, and names of those four sacred months are 9th (Ramadan), 10th Shawwal, 11th Dhu al-Qa’da, and 12th Dhu al-Ḥijja. But what we see in fabricated hadiths books; that is concoction of hypocrites which is mentioned in verse 9:37. Those hypocrites changed original scared months. During Hajj, there becomes stamped several times which has so far killed thousands of Pilgrims. This problem of stampede can be solved if relevant authorities conduct Hajj two to four times during four sacred months. According to Quran, Hajj season starts on First Ramadan, and Hajj of that first day is “Hajj al-Akbar”For Islam, you are not in need of reading any thing except Quran which is very clear. Ghamdi or Amin Islahi or Mouvi Ishaq are not Criteria of Truth. In Islam, Criteria of Truth is ONLY Book of Allah Azza wa Jal which has used word “WAFAT” over 25 times for death, and same word Wafat has been used for the death of Jesus. So it is 101% Clear.

Quran 5:117
مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَآ أَمَرْتَنِى بِهِۦٓ أَنِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ رَبِّى وَرَبَّكُمْ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى كُنتَ أَنتَ ٱلرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ شَهِيدٌ
Nothing did I tell them beyond what Thou didst bid me [to say]: `Worship God, [who is] my Sustainer as well as your Sustainer.’ And I bore witness to what they did as long as I dwelt in their midst; but since *Thou hast caused me to die, Thou alone hast been their keeper: for Thou art witness unto everything. (Asad)

ہندوستان، پاکستان اور عربوں میں؛ یہاں تک کہ اسکول میں پانچویں جماعت کا طالب علم بھی جانتا ہے کہ وفات کا مطلب موت ہے۔ مثال کے طور پر جب یہ مولوی اسحاق مرا تھا تو اخبار کی خبر کچھ ایسے تھی کہ مولوی اسحاق وفات پا گیا ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے مولوی اسحاق کا جسم اپنی طرف اٹھا لیا ہے؟

Even we read in Book of Bukhari that meaning of word مُتَوَفِّيكَ is as usual DEATH=MOUT.

Abu Hatim has given it with full chain:
حدثنا أبي ثنا أبو صالح ، حدثنى معاوية بن صالح ، عن علي بن أبي طلحة ، عن ابن عباس قوله : اني متوفيك يقول : اني مميتك .

You are not in need of running behind these Mullahs. Verse 3:144 tells that all Rasool before Mohammad are dead. So Isa also also dead. It is not 100% Clear?

3:144
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ ٱلرُّسُلُ أَفَإِي۟ن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ ٱنقَلَبْتُمْ عَلَىٰٓ أَعْقَـٰبِكُمْ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ ٱللَّهَ شَيْـًٔا وَسَيَجْزِى ٱللَّهُ ٱلشَّـٰكِرِينَ
AND MUHAMMAD is only an apostle (Rasool); all the [other] apostles (Rasools) have passed away before him: if, then, he dies or is slain, will you turn about on your heels? But he that turns about on his heels can in no wise harm God – whereas God will requite all who are grateful [to Him]. (Asad)

Died=No More=Passed away

In the same way, word RAFA of 4:158 is used also in several other verses of Quran, and in Quran, meaning of word RAFA to raise in Honor and spiritual exaltation. It never never means to raise body of flesh of bones to any remote part of sky (God is closer than neck-vein 50:16). Quran has used in 35:10, word Yas’ad for to lift some thing physically. and have used word RAFA for Spiritual Exaltation

35:10
مَن كَانَ يُرِيدُ ٱلْعِزَّةَ فَلِلَّهِ ٱلْعِزَّةُ جَمِيعًا إِلَيْهِ يَصْعَدُ ٱلْكَلِمُ ٱلطَّيِّبُ وَٱلْعَمَلُ ٱلصَّـٰلِحُ يَرْفَعُهُۥ وَٱلَّذِينَ يَمْكُرُونَ ٱلسَّيِّـَٔاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَكْرُ أُو۟لَـٰٓئِكَ هُوَ يَبُورُ
He who desires might and glory [ought to know that] all might and glory belong to God [alone]. Unto Him ascend (Yas’ad) all good words, and the righteous deed does He *exalt (Yarfahu)*. But as for those who cunningly devise evil deeds – suffering severe awaits them; and all their devising is bound to come to naught. (Asad).

Note: in this verse, word Yarfahu is just another connotation of word RAFA which is used in 4:158

Quran 4:158
بَل رَّفَعَهُ ٱللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ ٱللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا
nay, God exalted him unto Himself – and God is indeed almighty, wise. (Asad)

Even in so-called Hadith Books of Sunni sect, word RAFA is used for to raise in Honor and Darajat. There is well know Tradition in Sahih-Muslims>> Nabi said: who humbles to people for the sake of Allah Azza wa Jal; Allah Azza wa Jal raises him. Does it mean: that Allah Jalla Aala raises body of that person to SKY? No. It is to raise in honor.

وما تواضع أحد لله إلا رفعه الله – ‏رواه مسلم‏‏‏.

In 4:159, word MOUTE-HI points to the death of every Kitaabi. But Sunni and Shia translators twist translation at 180 degree opposite.

In verse 43:61, no any name of Isa appears. Word INNA-HU of 43:61 points toward Quran. In Quran, in several verses, word INNA-HU is used for Quran.sindhiقران-الحکیم کے مطابق، گو، نبی عیسی عليه السلام کی موت، صلیب پر نہیں ہوئی 4:157 مگر ایک لمبی عمر 5:110 گزارنے کے بعد وہ طبعی طور پر مر گئے 5:117 اور مردے واپس نہیں اتے۔ مگر جاہل فرقہ پرست مولوی، مفتی اور امام، قران کے اس سچ کو ماننے کی بجائے اپنی جہالت کا سارہ غصہ جھوٹے نبی مرزا غلام احمد قادیانی پر ڈال کر بھاگ جاتے ہیں۔ اور یہ فرقہ پرست مولوی، مفتی اور امام اتنے بڑے مجرم ہیں کہ اپنی من-گھڑت روایات کو سپورٹ کرنے کے لیے، قران کی ایات کے ترجمہ کی تحریف کر دیتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ ناسٹک-عیسائی تھے جنہوں نے یہ بچگانہ خرافات ایجاد کی کہ عیسی کی جگہ کسی اور بندے کو صلیب پر مارا گیا۔ جب عیسائی، ساتویں صدی عیسوی میں اسلام میں داخل ہوئیے تو انہوں نے یہ خرافات مسلمانوں میں بھی پھیلا دی۔ اسی طرح ان عیسائیوں نے عیسی کے زندہ اسمان پر جانے اور پھر واپس آنے کی خرافات بھی مسلمانوں میں پھیلا دی۔ اب جب عباسیوں کے دور میں سنی اور شیعہ فرقوں کی احادیث کی فورجری شروع ہوئی تو یہ خرافات ان کی احادیث کی کتب میں ڈال دی گئیں۔ اب، فرقہ پرست مولوی، مفتی اور اماموں نے اپنی من-گھڑت احادیث کو قران-مجید سے ری-کنسائل کرنے کے لئے قران کی ایات کے ترجمہ کی تحریف شروع کردی۔ مثال کے طور پر: قران میں لفظ وفات پچیس سے زیادہ ایات میں موت کے لیے استعمال ہوا ہے مگر جب وہی لفظ وفات، عیسی کے استعمال ہوتا ہے تو یہ حرام کے پلے اس کا ترجمہ موت کی بجائے عیسی کا زندہ اسمان پر اٹھایا جانا کر دیتے ہے۔ ہندوستان، پاکستان اور عربوں میں؛ یہاں تک کہ اسکول میں پانچویں جماعت کا طالب علم بھی جانتا ہے کہ وفات کا مطلب موت ہے۔ مثال کے طور پر جب یہ جاہل مولوی اسحاق مرا تھا تو اخبار کی خبر کچھ ایسے تھی کہ مولوی اسحاق وفات پا گیا ہے یعنی مر گیا ہے۔ اسی طرح قران کی متعدد ایات میں، لفظ رفعہ استعمال ہوا ہے جس کے معنی، درجے میں اور روحانی بلندی ہے مگر یہ مولوی اس کا ترجمہ اسمان کی طرف جسم کا زندہ اٹھایا جانا کر دیتے ہیں، سنی فرقہ کی روایات کی کتب میں بھی لفظ رفعہ، درجہ میں بلندی کے لیے کئی دفعہ استعمال ہوا ہے جیسے کہ صحیح-مسلم میں ہے کہ نبی عليه السلام نے کہا وما تواضع أحد لله إلا رفعه الله– ان جاہل ملاؤں کو یہ بھی پتہ نہیں کہ جب ہم، عیسائوں کی چوتھی صدی میں لکھی ہوئی چار گاسپل کو پڑھتے ہیں تو ان میں عیسی کے زندہ اسمان پر جانے اور پھر واپس آنے کی کہانی موجود ہی نہیں۔ یہ کہانی انہوں نے صدیوں بعد، گاسپل میں ڈالی۔ پھر یہ خرافات، من-گھڑت احادیث کا حصہ بن گئیں اور پھر سنی اور شیعہ ملاؤں کے دیمک-زدہ دماغوں میں یہ خرافات گھس گئی۔ اسی طرح یہ ملاں، ایات 4:159, 3:144, 43:61 کے ترجمہ کی بھی تحریف کرتے ہیں۔ ایت 4:157 کبھی بھی یہ نہیں کہتی کہ عیسی کی بجائے کسی اور کو صلیب پر مارا گیا۔ لفظ شُبِّهَ لَهُمْ صرف یہ بتا رہا ہے کہ عیسی عليه السلام  صلیب پر نہیں مرے مگر دشمنوں کو ایسے لگا کہ وہ صلیب پر مر گئے ہیں کیونکہ ایک بے-ہوش ادمی ایسے ہی لگتا ہے جیسے مردہ ادمی۔ تو ایک بے-ہوش انسان کی شبیہ ایک مردہ انسان سے ملتی ہے۔ قران ایت 4:157 میں یہ بالکل نہیں کہتا کہ عیسی عليه السلام کو صلیب پر نہیں چڑہایا گیا بلکہ قران کہتا ہے کہ عیسی مصلوب نہیں ہوئیے یعنی ان کو کروسی-فائی نہیں کیا گیا۔ یعنی ان کی موت، صلیب پر نہیں ہوئی یعنی، وَمَا صَلَبُوهُ۔ کروسی-فکشن کی تعریف یہ ہے کہ اگر کوئی انسان صلیب پر مر جاتا ہے تو اس کا معنی ہے کہ وہ مصلوب ہو گیا یعنی اسے کروسی-فائی کر دیا گیا۔ مگر اگر انسان کو اس کے مرنے سے پہلے ہی صلیب سے اتار دیا گیا اور بعد میں علاج کے بعد وہ صحت-ياب ہو گیا تو وہ کروسی-فائی نہیں ہوا۔ یہی بات قران ایت 4:157 میں کہہ رہا ہے۔ بہت سی تاريخی شہادت بتاتی ہے کہ  نبی عیسی کو صلیب پر چڑھایا گیا۔ اور قران ایت 4:157 میں اس بات سے انکار نہیں کرتا مگر قران ان کی مصلوبیت سے انکار کرتا ہے یعنی ان کی، صلیب پر موت سے انکار کرتا ہے، اور قران کے اس سچ کو تاريخی شواہد بھی سپورٹ کرتے ہیں. صلیب کی موت ان دنوں ایک لعنتی موت جانی جاتی تھی۔

متعدد تاريخ شواہد کے مطابق، جب حواریوں کو یقین ہو گیا کہ رومن اور یہود، ہر صورت میں نبی عیسی کو صلیب کی موت دینا چاہتے ہیں تو انہوں نے نبی عیسی کو بچانے کے لیے ایک منصوبہ بنایا۔ حواری، اعلی درجہ کے حکیم تھے۔ انہوں نے جڑی-بوٹیوں سے ایسی دوائی تیار کی جس کو سونگنے سے ہی انسان اسقدر بے-ہوش ہو جائے کہ اس کی شبیہ شُبِّهَ ایک مردہ انسان کی طرح لگے۔ جب نبی عیسی کو صلیب پر چڑھا کر ان کے پاؤں اور ہاتھ میں کیل ٹھونکے گیۓ تو تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے کہا میں پیاسا ہوں۔ اس پر ایک رومن فوجی نے ایک سپنج کو، پوسکا میں ڈبویا اور ایک لمبی ریڈ کے ذریعے نبی عیسی کے ہونٹوں تک پہنچایا۔ نبی عیسی نے اسے جوں ہی ہونٹ سے لگایا وہ بے-ہوش ہو گئے اور ان کی گردن ایک طرف لٹک گئی۔ اسی پوسکا میں حواریوں نے دوائی ملائی تھی۔ اب نبی عیسی کی شبیہ ایک مردہ انسان جیسی تھی اور رومنوں نے سمجھا کہ یہ تو اتنی جلدی مر گیا ہے حالانکہ صلیب پر موت، تین سے اٹھ دن لیتی ہے۔ منصوبہ کے مطابق ایک حواری یوسف، رومن افسر کے پاس گیا اور کہا کیرنکہ عیسی مر چکے ہیں لہذا ہمیں ان کی باڈی دی جائے۔ باڈی لے کر حواری اسے ایک خالی مقبرہ میں لے گئے اور تین دن ان کا علاج کیا۔ تیسرے دن نبی عیسی نے انکھیں کھولیں اور پوچھا میں کہاں ہوں؟ حواریوں نے پھر نبی عیسی کو پوری کہانی سنائی۔ باقی تفصیل ہمارے صفحہ پر پڑھیں۔ دشمنوں نے تدبیر کی نبی کو صلیب پر مارنے کی مگر رب نے تدبیر کی نبی کو موت سے بچانے کی، اور رب کی تدبیر سب سے بہتر ہوتی ہے وَمَكَرُوا۟ وَمَكَرَ ٱللَّهُ وَٱللَّهُ خَيْرُ ٱلْمَـٰكِرِينَ۔ نبی کو بچانے کا منصوبہ رب کا تھا۔ مگر اس منصوبے کی تکمیل حواریوں کے ذریعے کی گئی۔ یہود کی طرف سے نبی عیسی کو تکلیف دینے کا یہ واقعہ کوئی پہلا نہیں تھا۔ قران کہتا ہے کہ یہود نے متعدد انبیاء کو قتل کیا تھا۔      عیسی کی زندگی پر مندرجہ ذیل صفحہ دنیا کا بہترین صفحہ ہے اسے ضرور پڑھیے 

اب ہم اس تاريخی ٹریک کی بات کرتے ہیں جو ہمیں صاف صاف بتاتا ہے کہ صلیب کی موت سے بچ جانے کے بعد نبی عیسی اور ان کی والدہ محترمہ حضرت مریم کہا چلے گئے، کہاں رہے، کتنے برس زندہ رہے اور جب نبی عیسی کو ان کی وفات کے بعد قبر میں دفن کیا گیا تو اس وقت نبی عیسی کی عمر کتنی تھی۔ اس سارے تاريخی ٹریک کا جھوٹے نبی مرزا قادیانی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ صلیب سے بچ جانے کے بعد نبی عیسی نے اپنے اپ کو ایک مالی کے بہروپ میں بدلا تاکہ رومن ان کو پکڑ کر دوبارہ صلیب پر نہ چڑھا دیں۔ جان بچانا ہر انسان کا فرض ہے۔ پھر اپ نے کافی دنوں تک حواریوں سے بارہ سے زیادہ دفعہ خفیہ میٹنگ کیں، اور اخر میں انہیں بتایا کہ میں ہجرت کررہا ہوں اور میں دوبارہ یہاں فلسطین میں کبھی نہیں آؤں گا اور میرے بعد جیمز-دا-جسٹ کو فالو کرنا جو کہ اپکا دست-راست تھا۔۔ رومنوں سے پچنے کے لیے اپ نے بھیس بدلا اور نام بھی بدلا۔ وہ نام ہے یوز-اصاف۔ اپ اپنی اماں کو لے کر رات کو نکلے اور ملک-شام کے شہر دمشق چلے گئے۔ اپ وہاں اپنے ایک شاگرد انانیاس کے گھر میں رہے۔ کچھ عرصہ بعد کسی حرام کے پلے نے جاسوسی کی اور رومن پال کو بتایا کہ عیسی تو زندہ ہے اور دمشق میں موجود ہے۔ پال اس وقت رومنوں کا پولیس-افسر تھا۔ نبی عیسی کو گرفتار کرنے کے لیے، پال دمشق گیا۔ مگر نبی عیسی اور ان کے دوستوں نے پال کو دمشق کی طرف انے والے رستے پر ہی سوتے میں پکڑ لیا۔ پال، معافی مانگ کر واپس چلا گیا اور مشہور کر دیا کہ میں نے نبی عیسی کو وژن میں دیکھا ہے۔ پھر اسی پال نے عیسائیوں کو گمراہ کیا اور غلط رستہ پر لگا دیا۔ دمشق کے بعد نبی عیسی ترکی کے شہر نسی-بس گئے۔ وہاں سے ایران گئے اور وہاں پارسی-ملاؤں سے کافی مناظرے کیے اور انہیں کہا، آگ کو مت پوجو۔۔ ان مناظروں کا ریکارڈ ایران میں موجود ہے۔ پھر وہاں سے اپ افغانستان کے شہر ہرات گئے۔ پھر پاکستان کے شہر ٹیکسلا گئے اور وہاں اپ نے تھامس کے ساتھ، راجہ کی اکلوتی بیٹی کی شادی میں بھی شرکت بھی کی اور دولہا دلہن کو پند-و-نصیحت بھی کی کہ کیسے اچھی زندگی گزارنی ہے۔ شواہد ٹیکسلا میوزیم میں موجود ہیں۔ پھر اپ نے پاکستانی کیپیٹل اسلام-اباد کے قریب ایک پہاڑی پر رہائش اختیار کی۔ ان کے معجزات کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے اسی پہاڑی پر ارد-گرد مکان بنا لیے اور اس نئے گاؤں کا نام نبی عیسی کی والدہ کے نام پر “میری” رکھا۔ کچھ مدت بعد میری یعنی حضرت مریم فوت ہو گئیں اور نبی عیسی نے ان کو “میری” کی چوٹی پر ایک قبر میں دفن کردیا-

وہ انگریز تھے جنہوں نے انیسویں صدی میں اس گاؤں “میری” کا نام بدل کر “مری” رکھ دیا۔ یہ وہی صحت-افزا قصبہ ہے جو پاکسانی کیپیٹل اسلام-اباد کے قریب ہے۔ حضرت مریم کی دو ہزار سال پرانی یہودی سٹائل کی قبر ابھی بھی مری میں موجود ہے۔ اس کے بعد، نبی عیسی کشمیر کے شہر سرینگر چلے گئے اپ 120 سال کی عمر تک کشمیری اور افغانی قبائل کو تبلیغ کرتے رہے۔ فوتگی کے بعد تھامس نے انہیں سرینگر میں روضہ-بل میں دفن کیا۔ اپ کی دو-ہزار سال پرانی یہودی-سٹائل کی قبر کے ساتھ ایک پتھر کی تختی بھی جڑی ہوئی ہے جس پر نبی عیسی کے پیروں کے نشان کندہ ہیں۔ وہ نشان صاف بتاتے ہیں کہ صلیب پر اپکے ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں کے اوپر رکھ کر سات انچ لمبا کیل ٹھونکا گیا۔ پھر بھی خدا نے ان کو صلیب کے اوپر مرنے سے بچا لیا، اور اس طرح دشمنوں کی وہ چال ناکام ہوگئی جس کے ذریعے وہ اپ کو کروسی-فائی کرنا چاہتے تھے یعنی صلیب کے اوپر مارنا چاہتے تھے وَمَكَرُوا۟ وَمَكَرَ ٱللَّهُ وَٱللَّهُ خَيْرُ ٱلْمَـٰكِرِينَ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبی عیسی، ہجرت کر کے اخرکار کشمیر ہی کیوں آئے؟ اس کا جواب اپکو میتھیو کی گاسپل کی ایت 15:24 میں مل جاتا ہے۔ اس ایت میں نبی عیسی لوگوں کو بتا رہے ہیں ہیں کہ خدا نے انہیں صرف بنی-اسرائیل کی گم-شدہ بھیڑوں کی تبلیغ کرنے کے لیے بھیجا ہے۔ یہاں بنی-اسرائیل کی گم-شدہ بھیڑوں سے مراد بنی-اسرائیل کے وہ دس قبائل ہیں جو 2500 سال پہلے کھو گئے تھے۔ 2500 سال پہلے عراقی شہنشاہ بخت نصر نے اسرائیلی سٹیٹ پر حملہ کر کے اسے مکمل تباہ کر دیا تھا اور بنی-اسرائیل کے بارہ قبائل سے دس قبائل کو غلام بنا لیا تھا۔ بہت بعد میں، اس نے ان دس قبائل کو مشرق کی طرف بے-دخل کر دیا تھا اور اخرکار جس جگہ ان قبائل نے رہائش اختیار کی اسے اج ہم افغانستان اور کشمیر کے نام سے جانتے ہیں۔ قبائل کے نام نہیں بدلتے اور صدیوں چلتے ہیں یہی وجہ ہے کہ 2500 سال گزر جانے کے بعد بھی، اج بھی، اپ کشمیریوں اور افغانیوں کے قبائل کے نام تورات میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے؟ افغانی اور کشمیری؛ نسلی طور پر یہودی نہیں ہیں بلکہ یہودیوں کے کزن ہیں یعنی چاچے کے پتر ہیں۔ “ریسٹورڈ گاسپل آف نزارین” میں لکھا ہے کہ صلیب کی موت سے بچ نکلنے بعد نبی عیسی پارتھین-ایمپائر کے مشرق میں چلے گئے۔ اگر اپ پارتھین-ایمپائر کا 2000 سال پرانا نقشہ دیکھیں تو اپ کو معلوم ہو گا کہ ایران، افغانستان اور کشمیر کی زمین پارتھین-ایمپائر کے مشرقی حصے تھے۔ ہماری ٹیم نے اس ٹاپک پر چالیس سال تک مسلسل تحقیق کی ہے۔ تو جناب یہ ہے سارہ سچ، مگر رابی، چرچ اور مولوی، صدیوں سے جو رام-لیلا کی کہانی لوگوں کو سنا رہے ہیں اس کا نہ سر ہے نہ ہی پیر۔ ہمارے جاہل فرقہ-پرست مفتی اور مولوی، اس سچ کو ماننے کی بجائے اپنا سارا غصہ جھوٹے نبی مرزا غلام احمد قادیانی پر اتار دیتے ہیں۔ سچ یہ ہے تاریخ کا علم ایک کنویں کی مانند ہے۔ اس کنویں سے ایک مسلمان بھی پانی بھر سکتا ہے اور ایک عیسائی بھی، بدھ بھی، سکھ بھی، مولوی ڈیزل بھی، ہندو بھی اور قادیانی بھی۔ مگر سب کی بالٹیوں میں جو پانی ہے وہ تو ایک جیسا ہی ہے۔ جو بھی نقات ہم نے بیان کیے ہیں اپ ان کے حوالاجات ہمارے مندرجہ ذیل صفحہ میں پڑھ سکتے ہیں مگر یہ صفحہ انگریزی زبان میں ہےجیسا کہ ہم نے لکھا ہے کہ عیسائی اور یہودی مذاہب کے متعلق غامدی ایک جاہل مطلق ہے۔ یہ ادمی بارناباس کی جعلی گاسپل کے حوالے تو دیتا ہے مگراس نے تمام گاسپلز کے پرانے نسخے نہیں پڑھے جن میں لکھا ہے کہ صلیب سے اتارنے کے بعد جب ایک خالی ٹومب میں ایسین یعنی حواری، نبی عیسی کے زخموں کا علاج کر رہے تھے وہ ان کے سر اور پاؤں کی طرف بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ عورتوں نے انہیں دیکھا۔ سب حواری سفید لباس پہنتے تھے۔ مگر بعد میں پادریوں نے ان سفید کپڑوں میں ملبوث حواریوں کو فرشتے بنا ڈالا۔ اسی جعلی کہانی کو غامدی اپنے ویڈیو میں سنا کر کہہ رہا ہے کہ مرے ہوئے عیسی کو فرشتے اٹھا کر لے گئے- اس جاہل کو اس قسم کی مزاحیہ بچگانہ کہانیاں سناتے ہوے شرم بھی نہیں اتی۔

او سوڈو سکالر ڈاکٹر سعید مکی یا مکھی: چرچ کے افسانہ، عیسیٰ کی واپسی کی تائید کرنے کے لیے، قرآن-الحکیم کی تحریف مت کرو اور خدا سے ڈرو۔ جھوٹا نبی مرزا غلام احمد قادیانی بڑا فراڈ تھا لیکن سچ یہ ہے کہ تم سنی ملاں اس کرۂ ارض کے سب سے بڑے جھوٹے ہو۔ قرآن-مجید سادہ اور سیدھا ہے ۵۴:۴۰۔ لوگوں کو کنفیوز نہ کرو۔ ہندوستان اور پاکستان میں سب لوگ جانتے ہیں کہ عربی/اردو کے لفظ وفات کے کیا معنی ہیں اور وہ موت ہے۔ جیسا کہ قلان شخص اج وفات پا گیا ہے یعنی مر گیا ہے۔ ایک بچے کو بھی پتہ ہے کہ وفات کے معنی مر جانا ہے۔ یہ نیند والی منترہ تو ۵:۱۱۷ میں فٹ ہی نہیں ہوتی۔ قرآن مجید میں موت کے لیے ۲۵ سے زائد آیات میں لفظ وفات استعمال ہوا ہے، اور وہی لفظ وفات ۱۰:۴٦ میں آخری نبی محمد کی وفات کے لیے استعمال ہوا ہے، اور یہی لفظ وفات ۳:۵۵، ۵:۱۱۷ میں عیسی کی موت کے لیے استعمال ہوا ہے۔ عیسی کی موت تو قرآن میں سو فیصد واضح ہے۔ لہٰذا قرآن کی اصطلاحات کو توڑنا مروڑنا بند کرو۔ خدا سے ڈرو۔ قرآن کے مطابق حضرت عیسیٰ مر چکے ہیں اور مردے کبھی واپس نہیں اتے۔
یہاں تک کہ، آپ کے پارسی پردادہ بخاری نے اور اپ کے دادا ابن-حجر نے بھی لکھا ہے کہ ابن عباس نے کہا ہے کہ ۳:۵۵ اور ۵:۱۱۷ میں لفظ وفات کا معنی ممیتک = موت ہے۔ اسی رپورٹ کو ابی حاتم نے مکمل اسناد کے ساتھ دیا ہے اور سعودیہ یونیورسٹیوں کے پروفیسر ڈاکٹر حکمت بشیر نے ابی حاتم کی رپورٹ کو صحیح قرار دیا ہے۔ اس ایت میں سب فعل، ماضی کے ہیں یعنی عیسی کی موت کے بعد اس کا خدا سے مکالمہ ہو چکا ہے ۳۲:۱۱۔

قرانی ایت ۴۳:٦۱ میں عیسی کا نام ہی نہیں ہے مگر چرچ کے افسانہ کو سپورٹ کرنے کے لیے تم سنی مشرکین، ایت ۴۳:٦۱ میں عیسی کا نام ڈال دیتے ہو، اس ایت میں لفظ إِنَّهُ دراصل قران کی طرف اشارہ کرتا ہے مرے ہوئے نبی عیسی کی طرف نہیں۔ قران کی متعدد ایات میں لفظ إِنَّهُ قران کے لیے استعمال ہوا ہے۔

قرانی ایت ۴:۱۵۹ کی بھی تم تحریف کرتے ہو حالانکہ اس ایت کا لفظ مَوْتِهِ ہر یہودی اور نصرانی کی موت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

تم ایت ۴:۱۵۷ کی بھی تحریف کرتے ہو اور اس ایت میں یہ من-گھڑت اگناسٹک-عیسائوں کی کہانی ڈال دیتے ہو کہ عیسی کی بجائے کسی اور شخص کو صلیب دی گئی۔ یہ سو-فیصد من-گھڑت خرافات ہے

اور ایت ۴:۱۵۸ میں جو لفظ رفعہ ہے وہ قران کی دوسری ایات میں بھی استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں درجہ بلند کرنا یا موت کے بعد روح کا اٹھا لے جانا۔ اصل انسان روح ہے وہی خدا کے حکم سے ماں کے رحم میں اتی ہے اور انسان کے مرنے کے بعد وہی روح واپس جاتی ہے- یہ مٹی کا جسم مٹی سے بنا ہے اور مٹی میں ہی واپس جاتا ہے۔ حتی کہ ابو-حنیفہ نے بھی کتاب دین-عند-ابوحنیفہ میں بھی ایت ۴:۱۵۸ کے لفظ رفعہ کی بھی یہی تشریح کی جو میں نے ابھی کی ہے

خاتم الأنبياء نے پیچھے صرف لکھا ہوا قران چھوڑا۔ انہوں نے پیچھے کوئی بھی سنت، حدیث یا تفسیر کی تحریر نہیں چھوڑی۔ اس کے بعد چار خلفاء راشدین نے اور تمام اصحابہ کرام نے بھی پیچھے صرف لکھا ہوا قران ہی چھوڑا۔ انہوں نے پیچھے کوئی بھی سنت، حدیث یا تفسیر کی تحریر نہیں چھوڑی۔ تو، پھر تم سنی اور شیعہ، یہ حدیث، تفسیر اور سنت کی سٹوریاں کہاں سے لے آئے ہو؟ اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کا مطلب صرف قران کو فالو کرنا ہے، اور قران داڑھی رکھنے کو نہیں کہتا۔ داڑھی تو یہودیوں اور سکھوں کی بھی ہوتی ہے۔ داڑھی محض ایک کلچر ہے۔ اگر داڑھی ضروری ہوتی تو قران-الحکیم اسے ضرور فرض قرار دیتا۔ اور رسول کی صحیح اسوہ-حسنہ صرف قران کے اندر ہے اسی لیے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تھا کہ قران ہی نبی کا اخلاق ہے القرآن فإن خلق رسول اللهResponding to one person: Mohson Khan about Durood Ibrahimi and five daily Namaz Rituals:

محسن بھائی: قران-مجید ایک بڑی کتاب ہے اور اللہ عزّ وجلّ ایات ٦:۱۱۴ اور ۱٦:۸۹ میں فرماتا ہے کہ اس کا قران، مفصل ہے اور اس کا قران، اس ہر بات کی مکمل تفصیل بیان کرتا ہے جوکہ دین-اسلام کا حصہ ہے۔ ان ایات سے واضغ ہو گیا کہ قران ہی اسلام ہے۔ جو قران میں نہیں ہے وہ دین اسلام کا حصہ نہیں ہے، قرانی صلاۃ کا ان پانچ پوجا-پاٹ نمازوں سے کوئی تعلق نہیں جو ایرانی پارسی مذہب سے، سنی اور شیعہ اماموں نے امپورٹ کیں تھیں۔ اور پھر ان پانچ پارسی نمازوں کو جائز قرار دینے کے لیے انہوں نے اڑنے والے کھوتے براق کی حدیث فورج کر ڈالی۔ انہوں نے براق کی ساری کہانی پارسی مذہب کی ایک کتاب آرڈا-ویراف سے نقل کی۔ محسن بھائی: آگر صلاۃ، نماز ہوتی تو قران ہم کو کم از کم پانچ نمازوں کی رکعات کی تعداد تو ضرور بتاتا۔ یہ پانچ نمازیں، ہندوؤں کی بوجا-پاٹ سے کم نہیں۔ ہندو، شیوا کے بت کو سجدے کر کے پوجتے ہیں اور سنی اور شیعہ نے کعبہ کو بت بنا ڈالا ہے۔ پورے قران-مجید میں ایک ایت بھی نہیں جو ہم کو کعبہ کو سجدے کرنے کو کہتی ہو۔ پورے قران میں ایک ایت بھی نہیں جو یہ کہتی ہو کہ کعبہ کو سجدہ کرنا، صلاۃ کا حصہ ہے۔ قران-مجید کی ایت ۲:۱۷۷ کہتی ہے کہ یہ نماز، نیکی کا کام ہی نہیں۔ یعنی ایسی کعبہ کی پوجا-پاٹ فضول ہے بیکار ہے۔ قران-مجید ایک بڑی، مفصل، اور مکمل کتاب ہے مگر پورے قران-مجید میں نہ تو التحیات کی عبارت موجود ہے نہ ہی درود ابراھیمی موجود ہے۔ التحیات اور درود ابراھیمی کو، بغداد کے ایرانی-نژاد شیعہ حاکم معزدولہ نے فورج کروا کر، نمازوں میں ڈالا تھا۔

سنی اور شیعہ یہ کہتے ہیں کہ نماز کا طریقہ اور تفصیل انہوں نے رسول کی احادیث اور سنت سے سیکھی ہے۔ مگر یہ ایک جھوٹ ہے کیونکہ نبی نے یا چار خلفاء نے یا کسی بھی صحابی نے پیچھے ایک صفحہ بھی حدیث اور سنت کا نہیں چھوڑا۔ سب کی سب سنت اور احادیث کی کتب بدعا ہیں۔ یہ کتابیں من-گھڑت ہیں

گو میں نے اس ٹاپک پر پہلے ہی مفصل رائے دے دی ہیں اور میں، ایک جاہل انسان کے ساتھ اپنا مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا، پھر بھی۔ جاتے جاتے، میں ایک نقطہ کی وضاحت کرتا چلوں۔ قران-مجید دنیا کی سب سے زیادہ خوبصورت کتاب ہے کیونکہ قران، اپنی تصریف کے ذریعے، خود اپنی تفسیر کرتا ہے۔ قران کی ایات ۲۲:۱۸ اور ۵۵:٦ بتاتی ہیں کا چاند، سورج، ہاتھی، شیر، ستارے اور پہاڑ بھی سجدہ کرتے ہیں۔ اگر قران-الحکیم میں سجدہ کرنے کے معنی بت-پرستوں کی طرح کعبہ کی طرف متھا ٹیکنا ہے تو کیا تم نے یا ڈاقٹر تاہرکادری نے کبھی چاند، ہاتھی، سورج، شیر یا پہاڑ ہمالیہ کو کسی اہل-حدیث، سلفی، وھابی، بریلوی، چڑیلوی یا کسی دیو-بندی یا جن-بندی یا پری-بندی یا نس-بندی مسجد میں داخل ہو کر استنجا کرتے اور پھر وضو کرتے دیکھا ہے، انڈین گآنوں کی طرز پر شرکیہ نعتیں پڑھتے دیکھا ہے، من-گھڑت التحیات اور من-گھڑت درود-ابراھیمی پڑھتے دیکھا ہے، مسجد سے پانی کی ٹوٹیاں اور بجلی کے بلب چراتے دیکھا ہے، پھر چیخ چیخ کر بڑے لؤڈ-سپیکر میں شیعہ یا سنی برانڈ کی من-گھڑت آذان دے کر پتھر اور گارے کے بنے ہوا کعبہ کو سجدے کرتے دیکھا ہے؟ نہیں۔ تو یہ بات صاف ہو گئی کہ قران-الحکیم میں، سجدہ کے معنی اللہ جَلَّ جَلَالَهُ کے قوانین کو تذلل کے ساتھ ماننا ہے، اس کے معنی، مکے کے قدیم مشرکوں کی طرح کعبہ کو متھا ٹیکنا نہیں۔ سچ یہ ہے کہ جب اپ، قران میں دیئے ہوۓ اللہ جَلَّ جَلَالَهُ کے قوانین اور اخلاقی اصولوں کو ایمانداری سے فالو کرتے ہیں تو اپ حالت-سجود میں ہیں۔ ایک سچا مسلمان ہر وقت حالت-سجود میں ہوتا ہے۔

قران-الکریم کی ایت ۲۴:۴۱ بتاتی ہے کہ پرندے بھی صلاۃ کو فالو کرتے ہیں۔ آگر صلاۃ، نماز ہے تو پرندے کیا شیعہ کی طرح نماز پڑھتے ہیں یا سنی فرقہ کی طرح نماز پڑھتے ہیں؟ پرندے اس مشن اور سٹرائیف کو فالو کرتے ہیں جس کا حکم، اللہ جَلَّ جَلَالَهُ نے انہیں دے رکھا ہے۔ صلاۃ، نماز نہیں ہے۔16_116ایک جاہل سنی کو جواب دیتے ہوئے-
حضور- اپ کی بات میں نہ کوئی وزن ہے نہ ہی کوئی دلیل ہے۔ اپ فرقہ پرستوں ۳:۱۰۳ کی یہ عادت ہے خالی بڑھکیں مارنا اور ایسی بات کرنا جس کا نہ سر ہو نہ پیر ہو۔ اپ کے جاہل استادوں نے جو جہالت اپ کو سکھائی ہے وہی جہالت اپ اگلی نسل کو منتقل کر رہے ہیں، یعنی بھیڑ چال چل رہے ہیں اور جہالت پر فخر کرتے ہوئے اپ اسے تقلید کہتے ہیں ۲:۱۷۰۔۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ٱتَّبِعُوا۟ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ قَالُوا۟ بَلْ نَتَّبِعُ مَآ أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ ءَابَآءَنَآ أَوَلَوْ كَانَ ءَابَآؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْـًٔا وَلَا يَهْتَدُونَ

اپ مجھے بتائیں کہ خاتم الأنبياء عليه السلام نے، چار خلفاء رضي الله عنهم نے اور تمام صحابہ رضي الله عنهم نے پیچھے کون سی لکھی ہوئی کتاب مسلمانوں کے چھوڑی تھی؟ انہوں نے صرف اور صرف لکھا ہوا قران ہی چھوڑا ٦:۱۹، ٦:۱۱۴۔ اس لیے اگر اپ رسول، اور صحابہ کو فالو کرنا چاہتے ہیں تو جناب: اس کتاب کو فالو کریں جو رسول نے، چار خلفاء نے اور تمام صحابہ نے پیچھے چھوڑی ہے اور وہ کتاب صرف قران-الحکیم ہے۔ یہ سیرت، فقہ، تفسیر، سنت، اسباب-نزول اور احادیث کی کتب اس وقت گھڑی گیئں جب رسول فوت ہو چکے تھے، چار خلفاء فوت ہو چکے تھے اور سب کے سب صحابہ بھی فوت ہو چکے تھے، سوڈو-امام پارسی بخاری کی روایات کو ذاتی طور پر صحیح کا درجہ دینے کے لیے کوئی بھی صحابی زندہ نہ تھا۔ اور الکافی اور نہج-البلاغہ کی روایات کی ذاتی طور پر تصدیق کرنے کے لیے خلیفہ علی زندہ نہ تھے۔ پھر، ان سنی سنائی گپ شپ جسے اپ نے احادیث کا نام دے رکھا ہے کو کیسے صحیح مانا جائے؟ کیا اپ کی عقل کام کرتی ہے؟۔

گامے نے ماجے سے سنا، اس نے ساجے سے سنا، اس نے ابو-ٹماٹو سے سنا، اس نے ابو-ڈیزل سے سنا کہ رسول نے کہا کہ کالے کتے شیطان ہیں (خرافات من صحیح-مسلم)۔ گامے نے ماجے سے سنا، اس نے ساجے سے سنا، اس نے ابو-ٹماٹو سے سنا، اس نے ابو-ڈیزل سے سنا کہ قران کی رجم کی ایات ایک بدکار سنی بکری کھا گئی ہے (خرافات من پارسی منافق ابن-ماجہ ۱۹۴۴)۔ خدا، قران ۱۵:۹ میں فرماتا ہے کہ وہ قران کا محافظ ہے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا ٱلذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُۥ لَحَـٰفِظُونَ لیکن ابن-ماجہ بتا رہا ہے کہ وہ بدکار سنی بکری اس سے بھی زیادہ طاقتور تھی جس نے قران کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا ہے۔ کیا سنی ملاؤں اور مفتیوں کی عقل کہیں گھاس چرنے چلی گئی ہے کہ ان کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ درحقیقت صحاح-ستہ کے چھ ایرانی مصنف، شکست-خوردہ پارسیوں کی باطنی-تحریک کے چھ منافق تھے۔ گامے نے ماجے سے سنا، اس نے ساجے سے سنا، اس نے ابو-ٹماٹو سے سنا، اس نے ابو-ڈیزل سے سنا کہ اخری نبی نے کئی دفعہ خود کشی کرنے کی کوشش کی تھی (خرافات من منافق بخاری)۔ قران کی ایت ٦۸:۴ میں لکھا ہے کہ اخری نبی اعلی اخلاق کے مالک تھے۔ وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ۔ گامے نے ماجے سے سنا، اس نے ساجے سے سنا، اس نے ابو-ٹماٹو سے سنا، اس نے ابو-ڈیزل سے سنا کہ رسول نے کہا کہ نبی عیسی مینار پر اتریں گے اور اور پھر جاہل ملاؤں اور فسادی مفتیوں کی ایک فوج بھرتی کرکے ہر نصرانی کے گھر میں گھس کر صلیب تھوڑیں گيں، اور پھر دنیا کے سارے گنے کے کھیتوں میں خنازیر کو تلاش کر کے ہلاک کریں گے پھر کانا دجال ائے گا اور پھر فریک مہدی اترے گا اور دجال کو مارے گا ۔ یہ سب خرافات ہیں جو منافقین، پارسیوں اور زنادقہ نے گھڑ کر خاتم الأنبياء عليه السلام کے نام لگا دی ہیں۔ ابن-عساکر تاريخ-دمشق میں لکھتا ہے کہ خلیفہ ہارون رشید عباسی نے ایک زندیق کو بلایا اور جلاد کو حکم دیا کہ اس کا سر قلم کر دو۔ زندیق بولا یا امیر المومنین کیا اپ کو پتہ ہے کہ میں نے ہزاروں احادیث فورج کی ہیں جن میں ان چیزوں کو ہلال کیا ہے جو قران میں حرام ہیں اور ان چیزوں کو حرام کیا ہے جو قران نے ہلال کی ہیں۔

جناب: نبی، اور صحابہ کو فالو کرنے کا مطلب صرف قران کو فالو کرنا ہے۔ من-گھڑت کتب کو نہیں۔جو قران میں نہیں، وہ اسلام کا حصہ نہیں، ۲۸:۸۵ ٦:۱۹، ٦:۱۱۴۔

إِنَّ ٱلَّذِى فَرَضَ عَلَيْكَ ٱلْقُرْءَانَ لَرَآدُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ قُل رَّبِّىٓ أَعْلَمُ مَن جَآءَ بِٱلْهُدَىٰ وَمَنْ هُوَ فِى ضَلَـٰلٍ مُّبِينٍ

قُلْ أَىُّ شَىْءٍ أَكْبَرُ شَهَـٰدَةً قُلِ ٱللَّهُ شَهِيدٌۢ بَيْنِى وَبَيْنَكُمْ وَأُوحِىَ إِلَىَّ هَـٰذَا ٱلْقُرْءَانُ لِأُنذِرَكُم بِهِۦ وَمَنۢ بَلَغَ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ ٱللَّهِ ءَالِهَةً أُخْرَىٰ قُل لَّآ أَشْهَدُ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَٰحِدٌ وَإِنَّنِى بَرِىٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ

أَفَغَيْرَ ٱللَّهِ أَبْتَغِى حَكَمًا وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ إِلَيْكُمُ ٱلْكِتَـٰبَ مُفَصَّلًا

ایک کامن-سینس کی بات ہے کہ اگر سیرت، فقہ، تفسیر، سنت، اسباب-نزول اور احادیث، دین-الاسلام کا حصہ ہوتیں تو خلفاء راشدین ان کتابوں کو ضرور لکھواتے۔ کیا مشکل تھی ان کے لیے ایسی کتابوں کو لکھوانے میں؟ کیا انہوں نے لکھوائیں؟ نہیں۔ تو، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیرت، فقہ، تفسیر، سنت، اسباب-نزول اور احادیث کی کتب سنی اور شیعہ کی خرافات ہیں، بدعا ہیں۔ رسول کی صحیح سیرت/اسوۃحسنہ صرف قران-الحکیم کے اندر ہے۔ قران جو کہ سب سچائیوں کا سچ ہے جنت کی چابی ہے ۱۷:۹ اسی لیے حضرت عائشہ نے ایت ٦۸:۴ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا تھا القرآن فإن خلق رسول الله

إِنَّ هَـٰذَا ٱلْقُرْءَانَ يَهْدِى لِلَّتِى هِىَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ ٱلْمُؤْمِنِينَ ٱلَّذِينَ يَعْمَلُونَ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًاغامدی صاحب: ایک ویڈیو میں، روزے کے بند ہونے کے ٹائم پر کھانے پینے کو جاری رکھنے یا نہ جاری رکھنے کے مسئلہ پر مسٹر ابو ہریرہ کی ایک رویت سنا رہے تھے تو ہمارے ایک ممبر نے غامدی صاحب کے ایک چاہنے والے کو یہ جواب دیا۔

لیجئیے جناب، ہم اپ سے دلیل کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ امید ہے اپ ناراض نہیں ہوں گے۔ یہ ایک سیدھی سی بات ہے کہ ایک بالغ مسلمان کی یہ ذمہ-داری ہے کہ وہ روزہ بند ہونے سے پہلے کھانا پینا چھوڑ دے۔ اب اس سیدھی سادھی بات کو سمجھنے کے لیے جناب غامدی صاحب کو بھلا مسٹر ابوہریرہ کی سٹوری سنانے کی کیا ضروت تھی؟ اہم سوال یہ ہے۔ کہ کیا ذاتی طور پر، خاتم الأنبياء عليه السلام نے یا ذاتی طور چار خلفاء راشدین رضي الله عنهم نے مسٹر ابوہریرہ کی اس بتائی ہوئی سٹوری کے صحیح ہونے کی تصدیق کی تھی؟ نہیں کی تھی۔ لہذا ایسی غیرمصدقہ روایات اور قصے کہانیوں کو سچ مان لینے کا کیا تک بنتا ہے جناب؟ سب جانتے ہیں کہ شیعہ فرقہ مسٹر ابوہریرہ کے بہت خلاف ہے۔ مگر سنی فرقہ کی بہت سی مشہور کتابوں میں بھی لکھا ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عمر رضي الله عنه نے مسٹر ابوہریرہ کو ایک بھکاری، ایک خائن چور اور حدیث-فورجر کہا جو من-گھڑت حدیثیں لوگوں کو سناتا تھا۔ یہ بات طبقات ابن-سعد اور بہت سی دوسری کتابوں میں بھی لکھی ہے کہ حضرت عمر رضي الله عنه نے مسٹر ابوہریرہ کو درے سے اتنا پیٹا کہ ان کے بدن سے خون نکلنے لگا۔ اب ایک کامن-سینس کی بات ہے کہ کیا اپ کو ایسے شخص کی من-گھڑت کہانیوں پر اپنے ایمان کی تعمیر کرنی چاہیے؟
جناب غامدی صاحب خود بھی جانتے ہیں کہ مسٹر ابوہریرہ کی جو سٹوری انہوں نے سنائی ہے وہ قابل-اعتبار نہیں ہے۔ مگر آجکل جناب غامدی صاحب حدیثیں بہت ہی زیادہ اس لیے سنا رہے ہیں تاکہ جنوبی ایشیا کے مولوی، ان کو منکر-حدیث کہنا بند کردیں۔ حالانکہ سچ یہ ہے کہ نہ تو نبی-کریم نے اور نہ ہی کسی بھی صحابی نے پیچھے کوئی بھی تحریر سنت، حدیث، تفسیر یا اسباب-نزول کی چھوڑی۔ ایسی کتب سنی اور شیعہ فرقوں کی ایجاد ہیں۔

أَفَغَيْرَ ٱللَّهِ أَبْتَغِى حَكَمًا وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ إِلَيْكُمُ ٱلْكِتَـٰبَ مُفَصَّلًا وَٱلَّذِينَ ءَاتَيْنَـٰهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُۥ مُنَزَّلٌ مِّن رَّبِّكَ بِٱلْحَقِّ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ ٱلْمُمْتَرِينَ

نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ وَمَآ أَنتَ عَلَيْهِم بِجَبَّارٍ فَذَكِّرْ بِٱلْقُرْءَانِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ

وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ تِبْيَـٰنًا لِّكُلِّ شَىْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ

أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّآ أَنزَلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَىٰ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَبہتر ہوتا کہ دین کے متعلق لوگوں کو گمراہ کرنے کی بجائے غامدی، پچوں کے لیے ٹوٹ-بٹوٹ جیسی کہانیاں لکھتا جن کو پڑھ کر بچے خوش ہوتے۔ اس کی بچگانہ سٹوریوں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس بندے کو بنیادی چیزوں کا بھی پتہ نہیں۔ یہ ایک پرلے درجے کا جاہل انسان ہے۔ نہ اسے قران کی صحیح سمجھ ہے نہ ہی اس نے تاریخ کو بھرپور پڑھا ہے، اور عیسائی اور یہودی مذاہب پر یہ مطلق جاہل ہے۔ یہ عیسیائوں کی من-گھڑت حدیث کی کتابوں مارک، میتھیو، لوک اور جان کو انجیل کہتا ہے حالانکہ اصلی انجیل۔ عیسی کی موت کے بعد ناپید ہوگئی تھی۔ سب بڑے بائبل کے سکالر کہتے ہیں کہ اج تک کسی کو نہیں پتہ کہ مارک، میتھیو، لوک اور جان کے مصنفوں کا کیا نام ہے۔ مارک، میتھیو، لوک اور جان جیسے نام ان چار گپ-شپ کی کتابوں کے ساتھ دوسری صدی کے اخر میں منسلک کیے گئے تھے

غامدی کی یہ بچگانہ کہانی ایک مذاق سے کم نہیں کہ فرشتے مردہ عیسی کو اٹھا کر لے گئے تھے۔ اگر عیسی کو اٹھاتے وقت غامدی نے کوئی ویڈیو بنایا تھا تو اس ویڈیو کو اپ-لوڈ کرے۔ غامدی کی ساری کہانی ایک من-گھڑت کتاب بارناباس پر مشتمل ہے جسے غامدی، انجیل کہتا ہے حالانکہ عیسی کی موت کے بعد اصلی انجیل ناپید ہو گئی تھی۔ قران ۲۰:۵۵ میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تم کو مٹی سے بنایا ہے اور تم واپس مٹی میں ہی جاؤ گے مگر غامدی اس مٹی کے مردہ جسم کو اسمان پر بھيج رہا ہے۔ ایت ۳۲:۱۱ میں موت کا قانون بتا دیا گیا ہے کہ موت کا فرشتہ انسان کو موت دیتا ہے اور پھر موت کے بعد مٹی کا جسم نہیں بلکہ روح خدا کے پاس لے جائی جاتی ہے۔ وہی بات ایت ۳:۵۵ میں کہی گئی ہے۔ غامدی، برناباس کی گاسپل کا حوالہ دے رہا ہے اور بائبل کے سب سکالر اور کافی مسلم سکالر بھی کہتے ہیں کہ برناباس کی گاسپل جعلی ہے جسے ایک ترک نے فورج کیا تھا۔ نبی عیسی کے بارے میں غامدی کا علم بہت کمزور ہے نہ ہی اس کو قران کی صحیح سمجھ ہے۔ لیکن اس نے اپنی سٹوری ضرور سنانی ہوتی ہے خواہ وہ سٹوری خالص بچگانہ ہی کیوں نہ ہو۔ سچ یہ ہے کہ قران کے علاوہ، کوئی بھی اللہ کی کتاب، اپنی اصلی حالت میں نہیں ہے۔ سچ یہ ہے عیسی صلیب پر تو نہیں مرے مگر ایک لمبی عمر کے بعد مر گئے اور روضہ-بل کی قبر میں دفن ہوئے۔ اور مردے واپس نہیں اتے۔ خدا کی روحانی دنیا میں نہ کوئی زندہ داخل ہو سکتا ہے نہ ہی مردہ داخل ہو سکتا ہے۔ مر کر، جسم مٹی میں جاتا ہے اور روح کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ یہی قران کا سچ ہے مگر جاہل لوگ، اس سچ سے بھاگ کر جھوٹے نبی مرزا قادیانی کے پیچھے پڑ جاتے ہیں

Following is a Truthful Video of Mr. Ghamidi

 
طارق-جمیل جیسے کسی جاہل مشرک سنی مولوی سے اگر کوئی مسئلہ پوچھو تو وہ اس سوال کا جواب کسی قرانی ایت سے نہیں واضع کرتا بلکہ یا تو وہ اپ کو کوئی من-گھڑت حدیث سنا دے گا یا پھر ابن-کثیر کی تفسیر کا حوالہ دے گا۔ مگر شامی مولوی ابن-کثیر وہ جاہل مولوی تھا کہ وہ اپنی تفسیر کی کتاب میں لکھتا ہے کہ یہ زمین ایک ایسے بیل نے اٹھائی ہوئی ہے جس کے چالیس ہزار سینگ ہیں۔ یہی کہانی ہندوؤں کی کتاب “اتھاروا- ویدا” میں لکھی ہوئی ہے۔ لگتا ہے اس جاہل ابن-کثیر نے وہ کہانی گائے کا موتر پینے والے ہندوؤں کی کتاب “اتھاروا- ویدا” سے کاپی کرکے اپنی من-گھڑت تفسیر
میں ٹھونس دی۔ تو جناب یہ ہے مولویوں کی لکھی ہوئی تفسیروں کا حال
 
ایک کتاب جس کا نام “مصناف ابن ابی شیبہ” ہے، پارسی-بخاری کی کتاب سے بھی پرانی کتاب ہے اس کتاب میں لکھا ہے کہ ایک ادمی نے جب خلیفہ ابوبکر اور خلیفہ علی سے ایک ایت کی تفسیر پوچھی تو اس نے جواب دیا ” وہ کونسی زمین ہے جو مجھے پناہ دے گی اور اور وہ کونسا آسمان ہے جو مجھ پر سایہ کرے گے اگر قران کے متعلق میں وہ بات کہوں جس کا مجھے علم نہیں ہے”

تمہارے اپنے امام غزالی نے اپنی کتب احیا-العلوم، اور منحول میں ایک رویت لکھی ہے کہ خاتم الأنبياء نے کہا جس انسان نے قران کی تفسیر اپنی رائے سے کی، اس کی سیٹ، جہنم میں پکی ہے۔ یہی رویت کئی اور مشہور کتابوں میں لکھی ہے جس میں مشکاۃ المصابیح بھی شامل ہے

مطلب یہ کہ قران، اپنی تصریف کے ذریعے، خود اپنی تفسیر کرتا ہے۔ قران کو کسی انسان کی بنائی ہوئی تفسیر کی ضرورت نہیں ہے۔

Commenting under video “Reply to Sheikh Imran Hosein on the Crucifixion of Prophet Isa (alayhis salam)” – User: Hanafi Fiqh Channel 09 April 2023

Brother: I have posted several comments in detail under this thread, so kindly spare time to read those all comments because I am supposed not to post same comments again again. But I will try to answer your point again in short.

Fact is: Quranic verse 4:157 never denies nailing of Jesus on Cross but verse 4:157 powerfully rejects Crucifixion of Jesus, which means: he was not Crucified, and that means: he DID NOT DIE ON THE CROSS. If you read definition of Crucifixion in all ancient Arabic and English Lexicons, it is “To bind or nail a person on the Cross IN ORDER TO KILL HIM”. So it is very clear here that KILLING ON THE CROSS is a binding condition of the punishment which is called Crucifixion. So, if person is nailed on the Cross and he dies on the Cross, then he is crucified=Salabuhu. But if person is removed from Cross before his death, and later person is resuscitated and he lived on; then he is NOT CRUCIFIED=Wa WA Salabuhu 4:157

If we honestly analyze verse 4:157 at microlevel with unbiased mind, then this verse confirms that Jesus was INDEED on the Cross “as it seems so as he has been crucified but was not Crucified” — words “as it SEEMED SO” points toward Unconscious-state of Jesus on the Cross because a Unconscious-Person seems (resembles=Shubbiha) like a dead person. Shubbiha=seemed as so=Resembled. Here resemblance of body of Jesus is his resemblance to a dead body. He resembled a dead body (that can be only on Cross) but he was not dead. He was in deeeeeeeep coma due to special drug which was given to him by Essene through a Sponge, at Cross. As soon as he sipped that sponge, his neck was turned aside, and he appeared now to Romans as perfect dead. Then a Muslim Essene Joseph of Arimathea approached to Roman Governor and told him that because Jesus is died, so we need his body. Body was given to Arimathea. He with another Muslim Essene Dr. Nicodemus took his body to empty tomb and treated it with Aloe Vera and with several other herbs, and on 3rd day. Jesus came out of Coma. Essene were EXPERT in Medicine and Surgery. According to Research, it is found that by a plan, Jesus was drugged on the Cross by Muslim Essene=HawaariYoon 3:52, so that Jesus should appear perfectly as dead, in order to save him from dying on the Cross. Of Course, behind this plan to save Jesus was the Lord of Universe. This is why we read in Quran 3:54

Quran 3:54 And the unbelievers schemed [against Jesus]; but God brought their scheming to naught: for God is above all schemers. (Asad).

Some people say: how could it happen to prophet of God. Such people must learn, that this life on earth is a test 67:2 and even Pious People Like Prophet Job (Ayub) and Yahaya went through those trials. Prophet Yahya was murdered, and Prophet Mohamamd was stoned in Ta’f and in battle of Ohd he was seriously Injured. Now point is: could not God save Yahya from murder? Answer is: God could save him, if He had willed so.

Verse 4:157 never tells that Jesus was replaced by someone on Cross. This fable of Substitution was sprouted from gnostic Christians groups. When people of those groups entered in Islam in 7th Century, they spread this fable of substitution among Muslims. Then that fable made its way to those six Hadith books of Sunni and 4 of Shia sect which were FORGED by defeated Persian Imams of Zoroastrian ancestry 250-400 years after the death of خاتم الأنبياء last prophet of God “Mohammad (Peace be upon him).

Even that so called hadith of Abu Hurairah which tells: Jesus will return and break crosses etc. is not said by Prophet Mohammad but it was said by Pseudo Convert Rabbi K’ab al-Ahbar, and then Abu Hurairah spread that story of K’ab among Muslims but by mistake, some Muslims wrote that story as Hadith of Prophet. This is why, when we read ancient books like Musannaf Abd-ar-Razzaq, you will find this story is being told by Abu Hurairah; not by Prophet.

بہت سی پرانی روایات میں نبی عیسی کے نازل ہو کر صلیبیں توڑنے اور خنازیر کو مارنے کی کہانی صرف ابوہریرہ صاحب سے ہی منسوب ہے۔ ان روایات میں “قال رسول-للہ” کے الفاظ موجود نہیں ہیں اور ان روایات میں نہ ہی ابوہریرہ صاحب یہ فرما رہے ہیں کہ انہوں نے یہ کہانی خاتم الأنبياء سے سنی ہے۔ ہم نے تقریبا سب احادیث کی کتابیں بھی پڑھی ہوئی ہیں

Allama Iqbal also rejected that story of Abu Hurairah as Al-Ahad report. We read in several top books of Sunni sect that Abu Hurairah used to tell stories of Rabbi K’ab al-Ahbar to people but some people used to write those stories of Rabbi K’ab as Hadiths of Prophet. This is reported by Ibn Kathir, Dhahabi, Muslim bin Hajjaj (author of Sahih Muslim) in his book Tamyeez, and in several other books too.

You can read one report in Sahih-Muslim in which Rasool said: “anyone who humbles to people for the sake of Allah Azza wa Jal; Allah Jalla Aala raises (RAFAHU) him. Here clearly meaning of word RAFAHU is to raise his ranks/spiritual exaltation. Same word RAFA is used in 4:158 for Jesus which points to his RAISE in honor and Spiritual Exaltation. Quran tells us in verse 20:55 that Man is made of of Dust and he returns to Dust (his dusty body never goes to Sky). Word RAFA is also used in several other verses of Quran for to RAISE darajat/honor.

وما تواضع أحد لله إلا رفعه الله – ‏رواه مسلم‏‏‏.‏

Man is made from Dust, and he will return to Dust 20:55

مِنْهَا خَلَقْنَـٰكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ

We also read in 3:144 that before Prophet Mohammad, all Rasool are died, so Jesus died naturally too 5:117 and dead never return. In verse 5:110, word KAHLAN shows, Jesus died at age which was over 90 years. According to Ancient Hadith Literature, age of Kahlan is that age when human skin starts to putrefy, and that age is over 90.

In 4:159, death of every Kitaabi (people of book) is mentioned; not death of Jesus in future. Sunni and Shia translator tamper translation to support fable of “ascension and return of Jesus”. No any name JESUS appears in 43:61. In that verse pronoun INNA-HU points to Quran; not to Jesus. In Quran, Pronoun INNA-HU is used in several other verses for Quran. For example, see in same Surah 43, verse 43:44

وَإِنَّهُۥ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ وَسَوْفَ تُسْـَٔلُونَ
Quran 43:44 The (Qur’an) is indeed the message, for thee and for thy people; and soon shall ye (all) be brought to account. (Yusuf Ali)

Word Wafat is used in over 25 verses for death. Same word WAFAT is used on 10:46 for the death of Prophet Mohammad and same word WAFAT is used for natural the death of JESUS in 3:55 and 5:117 فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى . Quran is very clear but people wish to follow fables which were concocted by Church.

فلاں آدمی اج شام کے وقت وفات پا گیا ہے۔ اس کا مطلب کیا یہ ہے کہ وہ مر گیا ہے یا یہ ہے کہ اسے اس کے جسم کے ساتھ آسمانوں کی طرف اٹھا لیا گیا ہے؟ بخاری اور مفسر ابن-حاتم نے بھی لکھا ہے کہ عیسی کے معاملے میں لفظ وفات کا معنی، موت ہے۔

حدثنا أبي ثنا أبو صالح ، حدثنى معاوية بن صالح ، عن علي بن أبي طلحة ، عن ابن عباس قوله : اني متوفيك يقول : اني مميتك

Ibn Hazm was Judge and Jurist in 11th Century. In his Book Muhalla; about 5:117, he writes that verse of Sleep never fits in 5:117. He writes: Truth is: near me, in 5:117 word Wafat indicates DEATH=MOUT of Jesus. He writes:

فَصَحَّ أَنَّهُ إنَّمَا عَنَى وَفَاةَ الْمَوْتِ

Will you not wonder that when we read four gospels of Christians “Mark Matthew Luke and John” of 4th Century from Codex Sinaiticus; we do not find any clue of story of Ascension and Return of Jesus. Church blended this fable in Gospels much later in order to show new converts that Christian Dogma is a supernatural dogma. Then when in 7th Century, Christians became Muslims, they spread this fable of Ascension and Return of Jesus among Muslims. Then this story made its way to CONCOCTED hadith books of Sunni sects. Then Sunni and Shia translators started to twist and tamper translation of Quranic verses 4:157…4:159, 3:144, 3:55, 43:61, 5:116-117 in order to reconcile their fabricated hadiths with the Quran.

Our team specializes on this subject and we have done almost 40 years research on this subject. You are suggested to read our several pages on the life of Isa son of Mary.

We do not belong to any sect, as Noble Quran forbids sects 3:103, 3:105, 42:13, 6:159. We are only MUSLIM because God has named us only MUSLIM in verse 22:78. We believe that Prophet Mohammad (peace be upon him) was the last prophet of God, and no any prophet will come after him.

آپ سب کو ماہ-رمضان مبارک ہو

پیارے بھائیوں اور پیاری بہنوں:
قران کا یہ سچ مان لینے سے کہ عیسی ایک لمبی عمر پانے کے بعد طبعی طور پر مر چکے ہیں اپ کو قادیانی یا احمدی نہیں بنا دیتا جیسے کہ جنوبی ایشیا کے مولوی کہتے ہیں۔ عیسی کی طبعی موت یہ بالکل بھی ثابت نہیں کرتی کہ مرزا غلام احمد قادیانی ایک سچا نبی تھا۔ سچ یہ ہے کہ وہ ایک جھوٹا نبی تھا۔ اج سے تیرہ سو سال پہلے امام مالک نے کہا تھا کہ “مات عیسی” تو کیا امام مالک ایک قادیانی تھے؟ پچھلے چودہ سو سال میں بہت سے مسلم سکالرز نے بھی عیسی کے اسمان پر جانے اور واپس نازل ہونے کی کہانی کو رد کیا ہے اور وہ سب سکالر ہرگز قادیانی یا احمدی نہیں تھے۔ مثال کے طور پر ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں کہ بلاشک عیسی کے اسمان پر جانے اور واپس نازل ہونے کا قصہ چرچ کی ایجاد ہے مگر یہ قصہ مسلمانوں میں گھس گیا ہے۔ علامہ اقبال بہت بڑا دماغ تھے اور وہ عیسی کے اسمان پر جانے اور واپس نازل ہونے کے قصہ کو سچ نہیں مانتے تھے

suHow was hoax of Ascension and Return of Jesus infused among Muslims?

When we read Copies of 4 Canonical Gospels from Codex Sinaiticus of 4th Century; we do not find any hoax of Ascension and Return of Jesus. Church blended this hoax in last 12 verses of Gospel of Mark and in Luke 24:51 much later in order to impress new converts that Christianity is a Supernatural Dogma.

When Christians converted to Islam in 7th Century; new converts also spread hoax of Ascension and Return of Jesus among Muslims. They also spread their fake Story of Substitution that Jesus was replaced on Cross by some one. Now that story later was blended in fabricated Hadith Books of Sunni and Shia sects. Now; in order to Reconcile stories of Fabricated Hadiths with Quran; Ghamidi type Mullahs started to tamper translation of several verses of Quran especially those verses which are relevant to Jesus.

Quranic verse 4:157 NEVER DENIES nailing of Jesus on the Cross but this verse denies Crucifixion of Jesus which means: Jesus did not die on the Cross = Not Crucified. because according to all definitions of Crucifixion; Death on the Cross is a Binding Condition of the punishment which is called Crucifixion.

Tons of historical, Biblical and Archaeological evidence shows that Jesus was INDEED nailed on the Cross but he survived death, and later secretly immigrated to East. Lived 120 years and died and is buried in grave of Rozabal.

This all historical, Biblical and Archaeological evidence has nothing to do with False Prophet Mirza G A Qadiani.

Oldest Copy of Mark also show, after incident of Cross, Jesus went to East and told his disciples to preach West. Restored Gospel of Nazarene also show that Jesus survived death on the Cross and secretly immigrated to East Zone of Parthian Empire (which are lands of Afghanistan, Pakistan Kashmir).

Historian Tabari of 10th Century also writes that Jesus and his mother became Immigrants as they left Palestine and wandered from Country to County to have refuge. Verse 23:50 of Quran tells us: Jesus and his mother became Refugee and God provided them with Shelter on Hilly Places where were fountains and gardens>> Murree, Srinagar.

It is written in over 30 well known ancient Books of Sunni sect that Prophet Mohammad said. Jesus died at age 120. And we all know that Prophet Mohammad was not follower of False Prophet Mirza G A Qadiani.

Jesus said in Matthew 15:24 I have been sent to lost sheep (Lost Tribes) of Israel.

AND INDEED, people of Afghanistan, KPK Pakistan and Kashmir are from lost tribes of Israel. 2500 years ago, they were taken into captivity by Babylonian Emperor Bakht Nasr (Nebuchadnezzar), and later, he deported them to the lands which are called today Kashmir, KPK Pakistan and Afghanistan. The Biggest Irrefutable Proof of that is: that even after 2500 years of their deportation from Palestine; even today, you can find Tribe Names of People of Kashmir and Afghanistan in OLD TESTAMENT. Can be there any bigger proof than this?

Our team specializes on the life of Jesus. We have done Research on this subject for over 40 years. You are suggested to read our several pages on the life of Jesus.

Pristine Islam existed only up to year 722 CE. Then during Abbasid Period, Islam was hijacked by Sunni and Shia Mullahs (Like Paul hijacked True Path of Jesus). Almost all Ministers including Prime Minister of Abbasid Caliph Harun Rashid were Zoroastrians from Bramka Family. Harun Rashid was caliph only by name. All control of state was in the hands of Bramka. Even Tutor of Harun Rashid was from Bramka. Slave-Girl>>Mother of Harun Rashid >> Queen al-Khaizrun was ally of Bramka.

Bramka planned to blend Five Zoroastrian Namaz Rituals in Islam. They managed to forge Hadith of Flying Horse Buraq. They copied story of Buraq from two Zoroastrian Books Arda Viraf and Zerdashnama. They also tried to change text of Quran but they failed because Quran is protected by God 15:9, 17:88, 41:42 through Huffaaz. Salat is not Five Rituals.
Then during that era, they were Zoroastrians who told Arabs how to understand Quran. They also invented dictionary of Quranic terms and translated as they wished. Since that time; almost all Arabs are understanding the Quran after wearing the glasses of Zoroastrians. Today; in Quranic Aloom, Arabs are as ignorant as are non-Arabs because both parties follow guideline of Zoroastrians which they produced during era of Abbasid Caliphs.

Arabic language used in 5:116-117 are in past tense, and neither you nor that south Asian Punjabi and Urdu Speaking Moulvi Ghamidi knows Arabic grammar better than us.

According Quran 3:144, Jesus is already died.

Active Past قَالَ qaala
anaqultu >> past
قَالَ – past tense
مَا يَكُونُ – past tense
إِن كُنتُ >> past tense

Following is the Translation of Internationally reputed Scholar of Quran Dr. Mohammad Asad PhD who lived in Saudi Arabia among Bedouins in order to learn Original Dialect of Quranic Arabic.

5:116 (All bold are in past tense)
AND LO! God said: O Jesus, son of Mary! Didst thou say unto men, `Worship me and my mother as deities beside God’?’ [Jesus] answered: ‘Limitless art Thou in Thy glory! It would not have been possible for me to say what I had no right to [say]! Had I said this, Thou wouldst indeed have known it! Thou knowest all that is within myself, whereas I know not what is in Thy Self. Verily, it is Thou alone who fully knowest all the things that are beyond the reach of a created being’s perception. (Asad)

مَا قُلْتُ – past tense
وَكُنتُ – past tense
past tense >>> مَّا دُمْتُ فِيهِمْم
As long as I dwelt in their midst
past tense >> وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا

5:117 Nothing did I tell them beyond what Thou didst bid me [to say]: `Worship God, [who is] my Sustainer as well as your Sustainer.’ And I bore witness to what they did as long as I dwelt in their midst; but since Thou hast caused me to die, Thou alone hast been their keeper: for Thou art witness unto everything. (Asad)

Jesus already dead 2000 years ago as per 3:144

وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ ٱلرُّسُلُ أَفَإِي۟ن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ ٱنقَلَبْتُمْ عَلَىٰٓ أَعْقَـٰبِكُمْ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ ٱللَّهَ شَيْـًٔا وَسَيَجْزِى ٱللَّهُ ٱلشَّـٰكِرِينَ

AND MUHAMMAD is only an apostle (Rasool); all the [other] apostles (Rusul) have passed away before him: if, then, he dies or is slain, will you turn about on your heels? But he that turns about on his heels can in no wise harm God – whereas God will requite all who are grateful [to Him]. (Asad)

Word قَدْ خَلَتْ is used in this verse . Same word is used in several other verses of Quran too and meaning of that word is THOSE WHO PASSED AWAY=DIED

In this verse word RUSUL is used which is Plural of Rasool. That means: Before Mohammad; all Rasool have been passed away=Died, and Jesus was also Rasool 5:75; so Jesus is also passed away=Died. Dead people do not return.

مَّا ٱلْمَسِيحُ ٱبْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ ٱلرُّسُلُ وَأُمُّهُۥ صِدِّيقَةٌ كَانَا يَأْكُلَانِ ٱلطَّعَامَ ٱنظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ ٱلْـَٔايَـٰتِ ثُمَّ ٱنظُرْ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ

5:75 The Christ, son of Mary, was but a Messenger (Rasool): all [other] Messengers had passed away before him; and his mother was one who never deviated from the truth; and they both ate food [like other mortals]. Behold how clear We make these messages unto them: and then behold how perverted are their minds!

In this verse 5:75 same words قَدْ خَلَتْ are used which are used in 3:144

Do not follow Ghamidi Blindly. He also tells many things which are 101% Incorrect. Like all other Sectarian Mullahs, he too, tamper translation of several verses of Quran deliberately in order to support his some unsound beliefs which he picked from his two Urdu/Punajbi Speaking South Asian Teachers Amin Islahi and Farahi.

Ghamidi also spread a big joke that after death of Jesus; angels came and lifted Jesus’s dead body to heavens. This is pure Childish Tale which shows: Ghamidi does not have even basic understanding of Quran, Spirituality and metaphysics. This man is not a scholar at all. He does not understand even very fundamentals.

Regardless if any Mullah is from Pakistan or from Saudi Arabia or from Qatar or from Turkey; they all twist and tamper translation of Quran in order to reconcile Quranic verses with their some fabricated hadiths. This is why; from over 100 translations of Quran; not a single one is without twists and tampering.Responding to one YouTuber: @osamamaqsood9411

Seems, you have not read my comments under this thread which I posted in response to Sheikh Imran’s comments. If you read those comments, you will find answers of all points which you have raised in your comments. However, let I recap:
In your comments you have raised following points.
1- You need Hadiths to know about Prophet.
2- His Miracles
3- You posted that Islam is Quran+Sunnah.

Prophet and all Sahaaba left behind not a single page of stories of Sunnah and Hadiths. Sunni’s own books show that Caliph Umar burned and banned all hadiths, and he refused to write Sunnah of Prophet, and said: La Kitaab m’a Kitaab-Allah”. All stories of Sunnah and hadiths were written when Prophet and all Sahaaba were already died. So, no any Hadith can be classified as Sahih because Prophet and even 4 Caliphs certified no any Hadith as Sahih/Authentic. If not authentic, then is Inauthentic. And how can you know about Prophet through inauthentic stories? For example: one Sunni Hadith tells that Prophet used to snore like a Camel. God tells us in 68:4 that Rasool used to have the best sublime conduct but Bukhari tells that Prophet attempted several suicides. Quran tells that God is protector of Quran 15:9, 17:88, 41:42 but Sunni’s hadith books tell that verses of stoning are missing from Quran because any Sunni-Sheep ate those verses. Tafsir Burhan of Shia sect show that Quran has been corrupted. This means: Persian Shia and Sunni Pseudo Imams are telling you that a Sheep was more powerful than the Greatest-One who has sent down the Quran!

Truth is: A Muslim is absolutely not in need of to know about Prophet Mohammad PBUH more than what is given in Quran 68:4.

No any verse of Quran ordains to follow Sunnah of mortal man “Mohammad” 18:110, nor in whole Quran, term “Sunnah of Rasool” appears. This makes clear that term “Sunnah of Rasool” is concocted by Sunni and Shia sects. In Quran, only two types of Sunnah is mentioned, Sunnah of Allah Azza wa Jal; and Sunnah of bad people of past.

Quran talks about Oswat-Hasana of Prophet Ibrahim and Prophet Mohammad. But did Prophet Mohammad or 4 Caliphs or any Sahaabi leave behind any manuscript of Oswat-Hasana? No. But why did they not leave behind such manuscript? Was it not easy for 4 Caliphs to compile books of Hadith and Sunnah? Why did they not compile? Right answer is: they did not compile Oswat-Hasana of Rasool because God has incorporated authentic oswat hasana of Rasools within Quran. When you follow all ethical codes of Quran; then you automatically follow also Oswat-Hasana of Rasool.
For example: Quran tells in 2:42, do not tell lies and do not suppress truth. When you follow 2:42, you are automatically following Oswat-Hasana of Rasool because he also never told lies. Historically, he was known as Sadiq and Ameen. This is why: Aisha RA said: “The Quran is Akhlaaq of Rasool-Allah
القرآن فإن خلق رسول الله

The Truth of all truths “Quran” is the Greatest Miracle of Last Prophet,* and no any other miracle is mentioned in Quran about Last Prophet. Miracles are not the sole criteria to assess prophethood. Because in the era of previous nations, when people asked from prophet Miracles; even after seeing miracles, they said to prophets that you are magician. So even miracles could not convince disbelievers.

وَلَمَّا جَآءَهُمُ ٱلْحَقُّ قَالُوا۟ هَـٰذَا سِحْرٌ وَإِنَّا بِهِۦ كَـٰفِرُونَ

وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ ءَايَـٰتُنَا بَيِّنَـٰتٍ قَالَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ لِلْحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمْ هَـٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ

51:52
كَذَٰلِكَ مَآ أَتَى ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا قَالُوا۟ سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ
Thus has it been (in the past): never did a Messenger come to the nations that preceded them but they said: (He is) a sorcerer, or a mad-man

Because Prophet, 4 Caliphs and all Sahaaba left behind only Quran; and Prophet was BOUND to follow only Quran 6:19, 6:114, 10:15, 50:45, 25:30, 28:85; therefore; after landing of Quran,

Islam=Quran, FULL STOP.

Any rite, Ritual (Namaz Pooja-Pot 2:177) and sharia law which does not have roots in Quran is absolutely not part of Islam.

During making Sharia law, to place man-made books beside book of Allah Azza wa Jal is 100% Shirk which Sunni and Shia have been committing from centuries.
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْكَـٰفِرُونَ

یہ مرزا انجینئر بھی جنوبی-ایشیا کا، غامدی کی طرح کا، ایک اور خود-ساختہ سکالر ہے اور یہ جاہل، جنوبی-ایشیا کے جاہل مسلمانوں میں پاپولر ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ یہ مرزا انجینئر، مرزا قادیانی سے بھی بڑا جاہل ہے۔ یہ بھی شرک گمراہی پھیلاتا ہے اور اگر اس کے ویڈیوز کو مائکرو-سکوپ سے پرکھا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ ادمی ایک خفیہ باطنی شیعہ ہے۔ عام طور پر انجینئرنگ پروفیشن کے لوگ، منطقی ہوتے ہیں راشنل بات کرتے ہیں مگر اس آدمی کی اکثر باتیں منطق کے برعکس ہوتی ہیں۔

ملک صاحبہ: اگر قرانی صلاۃ کا معنی نماز ہی ہے تو پرندے کونسی مسجد میں داخل ہو کر استنجا کرتے ہیں پھر وضو کرتے ہیں پھر کان-پھاڑ لوڈ-سپیکر پر سنی یا شیعہ فرقے کی شرکیہ آذان دیتے ہیں اور زمین پر متھا ٹیک کر، پتھر اور گارے کے بنے ہوئے کعبہ کو سجدے کرتے ہیں؟ قران-الحکیم ایت ۲۴:۴۱ میں بتاتا ہے کہ پرندے بھی صلاۃ فالو کرتے ہیں أَلَمْ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُۥ مَن فِى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَٱلطَّيْرُ صَـٰٓفَّـٰتٍ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُۥ وَتَسْبِيحَهُۥ وَٱللَّهُ عَلِيمٌۢ بِمَا يَفْعَلُونَ

ایت ۲۲:۱۸ میں بتایا گیا ہے کہ پہاڑ بھی سجدہ کرتے ہیں- اگر قران-مجید میں، لفظ سجدہ کے معنی کعبہ کی طرف متھا ٹیکنا ہے تو محترمہ: کیا، اپ نے کبھی پہاڑ ہمالیہ کو کسی مسجد میں داخل ہو کر، کعبہ کی طرف متھا ٹیکتے دیکھا ہے؟ قران-الحکیم سب سے زیادہ خوبصورت کتاب ہے کیونکہ قران، اپنی تفسیر اپنی تصریف کے ذریعے خود ہی کرتا ہے۔

صلاۃ، نماز نہیں ہے بی-بی صاحبہ۔ ہمارے جعلی ایرانی زورو-ایسٹرین پارسی حدیث اماموں نے ان پانچ نمازوں کو پارسی مذہب سے امپورٹ کیا تھا اور ان نمازوں کو جائز قرار دینے کے لیے انہوں نے اڑنے والے گھوڑے براق والی حدیث فورج کی۔ براق کی کہانی انہوں نے ایک پارسی کتاب آرڈا-ویراف سے کاپی کی۔ نماز اور ہندو کی پوجا پاٹ میں کوئی فرق نہیں۔ وہ شیوا کے بت کو بوجھتے ہیں اور سنی انفیڈل اور شیعہ انفیڈل نے پتھر اور گارے کے بنے کعبہ کو بت بنا کر اس کی پوجا شروع کر رکھی ہے۔ حالانکہ جو کعبہ کا فنکشن ہے وہ قران-مجید نے ایات ۵:۹۵، ۵:۹۷ میں بتا دیا ہے۔ پورے قران-مجید میں اپ کو ایک ایت بھی نہیں ملے گی جو کہتی ہو کہ کعبہ کو سجدے کرو۔ اصل میں ایات ۲:۱۱۵، ۲:۱۴۲، ۲:۱۷۷ کعبہ کو سجدہ کرنے سے منع کرتی ہیں۔ اور اپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ خاتم الأنبياء، چار خلفاء اور سب صحابہ نے پیچھے صرف لکھا ہوا قران چھوڑا۔ ایک صفحہ بھی حدیث اور سنت کا نہیں چھوڑا تو پھر یہ سنت اور حدیث کی کہانیں کہاں سے آ ٹپکیں؟

بات یہ ہے کہ جب قران-مجید میں یہ واضع ہے کہ نبی عیسی مرچکے ہیں تو، تم جاہلوں کو ان پرانے جاہل اماموں اور گپوڑیئے مفسروں کی من-گھڑت کتابوں کے پیچھے اندھوں کی طرح بھاگنے کی ضرورت ہی کیا ہے اور ان سنی اور شیعہ کی من-گھڑت حدیث کی کتابوں کو فالو کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ قران ۳:۱۴۴ میں صاف لکھا ہے کہ نبی محمد سے پہلے سب رسول گزر چکے ہیں یعنی مر چکے ہیں بہت ساری ایات میں قد-خلت ان کے لیے استعمال ہوا ہے جو مر چکے ہیں قصہ پارینہ ہو چکے ہیں۔ ایات ۵:۱۱٦، ۵:۱۱۷ میں سب فعل، فعل ماضی کے استعمال ہوئے ہیں جو بتاتے ہیں کہ عیسی کی موت کے بعد، ان ایات ۵:۱۱٦، ۵:۱۱۷ والا مکالمہ ماضی کی بات ہے۔ انڈیا پاکستان کے ہر بچہ کو پتہ ہے کہ جب کہا جاتا ہے فلاں شخص وفات پا گیا ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ مر گیا ہے۔ لفظ وفات، قران کی ۲۵ سے زیادہ ایات میں موت کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اور وہی لفظ وفات ایت ۱۰:۴٦ میں اخری نبی محمد کی موت کے لیے استعمال ہوا ہے اور وہی لفظ وفات ایات ۵:۱۱٦، ۵:۱۱۷ میں نبی عیسی کی موت کے لیے استعمال ہوا ہے۔ تو بات بلکل صاف ہے کہ ایات ۵:۱۱٦، ۵:۱۱۷ میں عیسی مر چکے ہیں۔ مگر اپنی جعلی حدیثوں کو سچ ثابت کرنے کے لیے شیعہ اور سنی مشرکین، قرانی ایات کا غلط ترجمہ کرتے ہیں۔ حتی کہ تمہارے پارسی مامے بخاری کی کتاب میں بھی لکھا ہے کہ مُتَوَفِّيكَ کا معنی ممیتک ہے یعنی مر جانا ہے۔ تمہارے ایک اور مامے ابن-حزم نے کتاب محلی میں لکھا ہے کہ ایت ۵:۱۱۷ میں لفظ وفات سے مراد عیسی کی موت ہے اور نیند والی ایت، ایت ۵:۱۱۷ میں فٹ نہیں ہوتی۔ سر سید اور اقبال جیسے بڑے دماغوں نے بھی عیسی کے اوپر جانے اور نازل ہونے کے قصے کو من-گھڑت قرار دیا ہے۔ ۱۳۰۰ سال پہلے امام مالک نے کہا عیسی مر چکے ہیں اور اب یہ بتاؤ کہ نبی نے اور سب صحابہ نے تم جاہلوں کے لیے کیا کوئی ایک صفحہ بھی حدیث یا تفسیر کا پیچھے چھوڑا؟ نہیں۔ صرف لکھا ہوا قران چھوڑا۔ پھر یہ حدیثوں کی خرافات کہاں سے آ گئی؟ اور قران کی متعدد ایات میں لفظ رفعہ درجہ بلند کرنے یا روح کو اوپر لے جانے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ تمہاری کتاب صحیح مسلم میں لکھا ہے وما تواضع أحد لله إلا رفعه الله” ‏(‏‏(‏رواه مسلم‏)‏‏)‏‏. یعنی جو خدا کے واسطے انسانوں کی تعظیم کرتا ہے خدا اس کا رفعه کر دیتا ہے یعنی درجہ بلند کر دیتا ہے اور تمہارے بڑے نانا ابوحنیفہ نے بھی کہا کہ ایت ۴:۱۵۸ کو سمجھنے کے لیے ایت ۳۵:۱۰ کو سمجھو جہاں رفعہ کا معنی درجہ بلند کرنا ہے مگر کسی چیز کو اوپر اٹھا لینے کے لیے لفظ یصعد استعمال ہوا ہے۔ مرزا انجینئر ایک پرلے درجے کا جاہل ہے ‏

ہم جانتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی ایک فراڈ تھا جھوٹا تھا مگر سچ یہ ہے کہ ۱۲۰۰ سال سے سنی اور شیعہ مولوی اور امام بھی جھوٹ بول رہے ہیں- قران کا سچ یہ ہے کہ گو عیسی صلیب پر فوت نہیں ہوئے ۴:۱۵۷ مگر وہ ایک لمبی عمر پا کر فوت ہوگئے تھے ۵:۱۱۷ اور مردے واپس نہیں آتے۔ نبی، اور سب صحابہ نے پيچھے صرف لکھا ہوا قران چھوڑا۔ ایک صفحہ بھی حدیث اور تفسیر کا نہیں چھوڑا۔ سب احادیث اور تفسیر من-گھڑت خرافات ہیں۔ ایت ۴:۱۵۸ میں رفعہ کا معنی درجہ بلند کرنا ہے یا روح کو اوپر لے جانا ہے۔ مٹی کا جسم مرنے کے بعد مٹی میں ہی واپس جاتا ہے جنت میں نہیں۔ ایت ۴۳:٦۱ میں عیسی کا نام ہی نہیں۔ ایت ۴۳:٦۱ کا لفظ وَإِنَّهُ قران کی طرف اشارہ کرتا ہے عیسی کی طرف نہیں۔ ایت ۴:۱۵۹ کا ترجمہ سنی اور شیعہ بلکل الٹا کرتے ہیں۔ ایت ۴:۱۵۹ میں الفاظ قَبْلَ مَوْتِهِ ہر عیسائی اور یہودی کی موت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس ایت کا عیسی کے اوپر جانے اور واپس انے سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ ایت ۳:۱۴۴ کے مطابق نبی محمد سے پہلے جو بھی رسول تھے مر چکے ہیں لہذا عیسی بھی مر چکے ہیں۔ یہ عیسی کے اسمان پر جانے اور واپس انے کی خرافات چرچ نے ایجاد کی تھی اور بعد میں یہ خرافات سنی اور شیعہ کی من-گھڑت حدیث کی کتابوں میں گھس گئی اور پھر اپنی من-گھڑت حدیثوں کو صحیح ثابت کرنے کے لیۓ سنی اور شیعہ نے ایات کے ترجمہ کی تحریف شروح کردی۔ ہر بچہ بھی جانتا ہے کہ وفات پا جانے کا مطلب مر جانا ہے۔ قران کی ۲۵ سے زیادہ ایات میں لفظ وفات، موت کے معنوں میں اتا ہے۔ اخری نبی کی موت کے لیے بھی ایت ۱۰:۴٦ میں لفط وفات ہی استعمال ہوا ہے اور عیسی کی موت کے لیے بھی وہی لفظ وفات ایت ۵:۱۱۷ میں استعمال ہوا ہے اور اس ایت میں سب فعل کے صیغے فعل ماضی کے ہیں۔ یعنی اس ایت والا مکالمہ عیسی کی موت کے بعد ہو چکا ہے۔۔ بات بالکل سیدھی ہی کہ عیسی مر چکے ہیں

یہ درود ابراہیمی، مفصل اور مکمل قرآن-مجید میں موجود ہی نہیں ہے۔ اسے بغداد کے بنی بویا کے فارسی شیعہ حکمران معز-دولہ نے فورج کروایا تھا۔ اور پھر اس من-گھڑت درود کو اس نے ان پانچ پارسی نمازوں کی التحیات میں ڈلوا دیا تھا جو کہ زرتشتیوں یعنی پارسیوں سے امپورٹ کی گئیں تھیں، اور بعد میں ان پانچ پارسی نمازوں کو اڑنے والے کھوتے براق کی من-گھڑت حدیث کے ذریعے اسلام کا حصہ بنا دیا گیا۔ صلات، نماز نہیں ہے۔ نماز اور ہندو کی بتوں کی پوجا-پاٹ میں فرق نہیں۔ ہندو، بت کو بوجتے ہیں اور سنی اور شیعہ مشرکوں نے کعبہ-شریف کو بت بنا ڈالا ہے جس کو وہ پارسی نماز میں سجدے کرتے ہیں۔ قران ۲:۱۷۷ میں صاف کہتا ہے کہ کہ نماز میں کوئی نیکی نہیں۔ یہ پوجا-پاٹ فضول ہے قران ۲:۱۱۵ میں بتاتا ہے جدھر بھی منہ کرو وہاں ٱلْحَىُّ ٱلْقَيُّومُ موجود ہے۔ یعنی خدا، مکہ کے کعبہ میں یا مسجد میں ہی موجود نہیں ہے وہ ہر جگہ موجود ہے تو پھر کعبہ کو سجدے کرنے کا کیا تک بنتا ہے؟ پورے قران میں کوئی ایسی ایت نہیں جو کہتی ہو کہ کعبہ کو سجدے کرو۔ پورے قران میں کوئی ایسی ایت نہیں جو کہتی ہو کہ سجدہ، صلات کا حصہ ہے۔ جب ایک عقلمند انسان اس من-گھڑت درود میں یہ الفاظ “وعلی آل محمد” پڑھتا ہے تو اس کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ فورجری صرف شیعہ مشرکوں کی ہی کارستانی ہے

In this page, we are always adding new comments. So please keep visiting this page periodically. And if you can read and understand English, then never miss our this main page. Thanks.

Additional comments/notes:

قرآن-الحکیم ایک کافی بڑی کتاب ہے، اور الله جَلَّ جَلَالَهُ فرماتا ہے کہ اس کا قرآن مفصل ہے ٦:۱۱۴، اور مکمل ہے، اور اس کا قرآن ہر اس چیز کی وضاحت کرتا ہے جو اسلام کا حصہ ہے ۱٦:۸۹۔ لیکن ہمیں قرآن میں کوئی مہدی یا دجال نظر نہیں آتا۔ مہدی اور دجال کے قصے احادیث کی من-گھڑت کتابوں سے پھیلے ہیں اور ایسی کتب اس وقت فورج کی گيئں تھیں جب خاتم الأنبياء اپنا گریٹ مشن (قران کو پہنچانا ۵:۹۹) مکمل کرنے کے بعد اپنے مالک کے پاس واپس جا چکے تھے، ۴ خلفائے راشدین اور تمام صحابہ بھی وفات پا چکے تھے اور احادیث کی اسناد اور متن کی صحت کو پرکھنے کے لیے کوئی ایک صحابی بھی زندہ نہ تھا۔ یہاں تک، کہ جراح اور تعدیل کے متعدد علماء نے کہا ہے کہ مہدی کے بارے میں تمام احادیث شیعہ نے گھڑی ہیں۔ پھر وہ شیعہ کی جعلی احادیث سنی فرقہ کی جعلی حدیث کی کتابوں میں بھی ملا دی گئیں۔ ابن خلدون اور بہت بڑے دماغ علامہ محمد اقبال نے بھی کہا: مہدی کے بارے میں ایک بھی حدیث صحیح نہیں ہے۔ دجال (اینٹی-کرائسٹ) چرچ کا افسانہ ہے۔ دجال کے بارے میں تمام احادیث ان عیسائی سوڈو کنورٹوں نے فورج کیں جنہوں نے اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے بظاہر اسلام قبول کیا۔ ایسے لوگوں کو منافق کہا جاتا ہے۔

نبی عليه السلام نے، چار خلفاء رضي الله عنهم نے اور سب کے سب صحابہ رضي الله عنهم نے پيچھے صرف لکھا ہوا قران ہی چھوڑا اور الله جَلَّ جَلَالَهُ نے ایات ٦:۱۱۴، ۱٦:۸۹ میں فرمایا ہے کہ اس کا قران مفصل ہے اور اس کا قران، اسلام کی ہر بات میں مکمل ہے۔ تو جناب: جب اپ کے پاس مکمل وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ تِبْيَـٰنًا لِّكُلِّ شَىْءٍ اور مفصل کتاب موجود ہے أَنزَلَ إِلَيْكُمُ ٱلْكِتَـٰبَ مُفَصَّلًا تو اپ کو ملاں ملوانوں اور دوسری من-گھڑت کتب کے پیچھنے بھاگنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟

نبی عليه السلام نے، چار خلفاء رضي الله عنهم بشمول علی رضي الله عنه نے اور سب کے سب صحابہ رضي الله عنهم نے پيچھے اپ سنی اور شیعہ فرقوں کے لیے ایک صفحہ بھی احادیث کا نہیں چھوڑا۔ قران-الحکیم جو کہ سب سچائیوں کا سچ ہے مکمل ہے وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ تِبْيَـٰنًا لِّكُلِّ شَىْءٍ مفصل ہے أَنزَلَ إِلَيْكُمُ ٱلْكِتَـٰبَ مُفَصَّلًا اور کافی ہے ٦:۱۱۴، ۱٦:۸۹ لہذا قران نازل ہونے کے بعد قران ہی اسلام ہے۔ کسی بھی ایسی عبادت پوجا-پاٹ، مناسک اور اسلامی قانون جس کی جڑ قران-الحکیم کے اندر موجود نہیں ہے ایسے مناسک، عبادت اور قانون کا دین الاسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے بالکل بھی نہیں ۲۸:۸۵ إِنَّ ٱلَّذِى فَرَضَ عَلَيْكَ ٱلْقُرْءَانَ لَرَآدُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ قُل رَّبِّىٓ أَعْلَمُ مَن جَآءَ بِٱلْهُدَىٰ وَمَنْ هُوَ فِى ضَلَـٰلٍ مُّبِينٍ ۔

اللہ اور رسول کی اطاعت کا معنی صرف قران کو ہی فالو کرنا ہے کیونکہ نبی عليه السلام نے، چار خلفاء رضي الله عنهم بشمول علی رضي الله عنه نے اور سب کے سب صحابہ رضي الله عنهم نے پيچھے صرف لکھا ہوا قران ہی چھوڑا۔
میں نے اپ کو ایسا مدلل جواب دیا ہے کہ پوری دنیا میں کسی سنی یا شیعہ مولوی کے پاس اس کا مدلل جواب نہیں ہے۔ مگر چونکہ ان فرقہ پرستوں کا مرشد ابلیس ہے اس لیے ان کے دماغ میں کوئی مدلل بات گھستی ہی نہیں۔ ابلیس نے بارہ سو سال سے ان مشرکین کے دماغ ہائی-جیک کر رکھے ہیں یعنی ان کی مت-مار دی ہوئی ہے

۳۸:۸۲. ۳:۸:۸۳
قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ۔ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ ٱلْمُخْلَصِينَ

س میں شک نہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی ایک جھوٹا نبی تھا، مگر مولوی: تم بھی خالص جھوٹ کی تبلیغ کر رہے ہو۔ قرآن-الحکیم مبین کتاب ہے اور واضح بات کرتا ہے۔ عیسیٰ صلیب پر نہیں مرے ۴:۱۵۷، لیکن لمبی زندگی گزارنے کے بعد ۵:۱۱۰ كَهْلًا، وہ قدرتی طور پر پر مر گئے ۵:۱۱۷۔ اور مردہ کبھی واپس نہیں آتا۔ ۴:۱۵۸ میں لفظ رَّفَعَهُ کے معنی روحانی بلندی ہے۔ ۴:۱۵۹ میں، قرآن کا لفظ مَوْتِهِ ہر کتابی کی موت کے بارے میں بات کرتا ہے۔ عیسیٰ کی آئندہ موت کے متعلق نہیں۔ ۴۳:٦۱ میں ضمیر إِنَّهُ قرآن کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ عیسیٰ کی طرف نہیں۔ یہ پوری حقیقت ہے۔ عیسی کے زندہ اسمان پر جانے اور واپس انے کا قصہ چرچ کی پیداوار ہے۔ پھر یہ قصہ احادیث کی کتابوں میں گھس گیا۔ پھر ان من-گھڑت احادیث کو قران کے ساتھ ری-کنسائل کرنے کے لیے تم جیسے بدیانت ملاؤں نے قرانی ایات کے ترجمہ کی تحریف شروع کردی

سچ یہ ہے کہ یہ مولوی شیخ الاسلام نہیں بلکہ شیخ-الجہالت ہے۔ دوسرے جنوبی ایشیا کے جاہل ملاؤں کا طرح کا ہی یہ بھی ایک پروٹو-ٹائپ مولوی ہے جسے نہ تو پتہ ہے کہ دین الاسلام کیا ہے اور نہ ہی یہ مولوی تاريخ کے متعلق کچھ جانتا ہے۔ البتہ یہ جنوبی ایشیا کے کانوں کا راجہ ضرور ہے – اس جاہل مفتی یا مفطی کو اتنا بھی پتہ نہیں کہ جس مسجد-الاقصی کا قران-الحکیم کی ایت ۱۷:۱ میں ذکر ہے اس کا اس مسجد-الاقصی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے جو کہ اج ہم فلسطین کے شہر یروشلم/القدس میں دیکھتے ہیں۔ سب تاريخ دان جانتے ہیں کہ جو مسجد الاقصی اج ہم فلسطین کے شہر یروشلم/القدس میں دیکھتے ہیں وہ بنو-امیہ کے خلفاء نے خاتم الأنبياء کی وفات کے ساٹھ سال بعد تعمیر کی تھی۔ تو پھر یہ پہلا یا دوسرا قبلہ کیسے بن گئی؟ بنو-امیہ کے خلفاء کا مکہ کے حاکم عبداللہ بن زبیر سے سیاسی جھگڑا تھا اور اس جھگڑے کی وجہ سے بنو-امیہ کے خلفاء نے امام زہری کو ارڈر دیا ایک حدیث فورج کرے جس میں شام کے مسلمانوں کو بتایا جائے کہ جو مسجد الاقصی انہوں نے فلسطین کے شہر یروشلم/القدس میں بنوائی تھی دوسرا قبلہ ہے یا پہلا قبلہ ہے۔ جس مسجد-الاقصی کا قران-الحکیم کی ایت ۱۷:۱ میں ذکر ہے وہ سعودیہ کے اندر ہے اور مکہ سے تقریبا ۳۳۰ کلو میٹر دور ہے اور اج بھی موجود ہے اور خاتم الأنبياء کی حیات میں بھی موجود تھی۔ یہ ساری بات ہم نے جو بتائی ہے سو-فیصد سچ ہے۔ جو اس سچ کو نہیں مانتا وہ جاہل ہے

سنی عقیدہ یا شیعہ عقیدہ، اسلامی عقائد نہیں ہیں بلکہ سنی عقیدہ اور شیعہ عقیدہ مشرکانہ کفارانہ عقائد ہیں کیونکہ یہ دونوں فرقے ان قرانی ایات کو مانتے ہی نہیں جو ایات، فرقہ پرستی سے منع کرتیں ہیں ۳:۱۰۳، ۳:۱۰۵، ٦:۱۵۹۔ نبی ابراھیم نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ صرف مسلمان تھے۔ اسی طرح نبی محمد نہ تو سنی تھے نہ ہی شیعہ تھے۔ وہ صرف مسلمان تھے۔ خدا نے ۲۲:۷۸ میں ہمارہ نام صرف مسلم رکھا ہے سنی اور شیعہ نہیں۔ قران کے مطابق، یہ فرقہ پرست اسلام کے دائرہ سے خارج ہیں ٦:۱۵۹ اور ان کا جہنم انتظار کر رہی ہے ۳:۱۰۵

مسٹر ملاں: کون سی قرانی ایت ہے جو بتاتی ہے کہ یہ پانچ پارسی نمازوں والی پوجا-پاٹ۔ قرانی صلاۃ ہیں؟ خدا کہتا ہے کہ اس کا قران مکمل ہے مفصل ہے ۱٦:۸۹، ٦:۱۱۴۔ مگر قران میں تو اپ کی پانچ نمازوں کے رکعات کی تعداد بھی موجود نہیں ہے۔ اور خاتم الأنبياء اور صحابہ نے پیچھے ایک صفحہ بھی احادیث اور سنت کا نہیں چھوڑا تو پھر اپ یہ پانچ نمازوں کی پوجا-پاٹ کہاں سے لے ائے؟ سچ یہ ہے کہ اپ کے اماموں نے اسے پارسی مذہب سے امپورٹ کیا اور اس پوجا پاٹ کو جائز بنانے کے لیے اڑنے والے کھوتے براق کی حدیث فورج کر ڈالی اور وہ اڑنے والا کھوتا فلسطین والی مسجد اقصی میں بھی گیا مگر سب تاریخ دان جانتے ہیں کہ فلسطین والی مسجد اقصی خاتم الأنبياء کی موت کے ٦۰ سال بعد بنوامیہ نے تعمیر کی۔ یعنی براق اور پانچ نمازوں کی اور قبلاتین کی پوری کی پوری کہانی ہی من-گھڑت فراڈ ہے. قرانی ایت ۱۷:۱ والی مسجد الاقصی تو سعودی عرب کے اندر موجود تھی اور ہے، اور وہ مکہ سے تقریبا ۳۳۰ کلومیٹر دور ہے

مسٹر مولوی: یہ قران کی کس ایت میں لکھا ہے کہ خاتم الأنبياء سیدالمرسلین ہیں؟ لوگوں کو گمراہ مت کرو۔ قران تو کہتا ہے لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ۔ کیا تم نے یہ ایت پڑھی ہے؟ قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ ٱلرُّسُلِ وَمَآ أَدْرِى مَا يُفْعَلُ بِى وَلَا بِكُمْ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰٓ إِلَىَّ وَمَآ أَنَا۠ إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ
اور قران میں تو درود کا لفظ موجود ہی نہیں۔ یہ فارسی زبان کا لفظ ایرانی شیعہ کی ایجاد ہے۔ اور کہاں لکھا ہے قران میں کہ جو دس دفعہ درود پڑھے گا تو اس کو اتنا ثواب ملے گا؟ لوگوں کو گمراہ مت کرو۔ اور یہ درود ابرھیمی تو قران میں موجود ہی نہیں۔ یہ درود بنی-بویہ کے ایرانی شیعہ حاکم معزدولہ کی ایجاد ہے۔ لوگوں کو گمراہ مت کرو

دوسرے فرقہ پرست جاہل ملاؤں کی طرح یہ پروٹو-ٹائپ مولوی بھی جاہل عوام کو مزید گمراہ کر رہا ہے۔ مرزا قادیانی تو جھوٹا نبی تھا ہی، مگر یہ مولوی بھی جھوٹ بول رہا ہے۔ قران-مجید میں صاف لکھا ہے نبی عیسی صلیب پر تو نہیں مرے ۴:۱۵۷ وَمَا صَلَبُوهُ ، مگر ایک لمبی عمر پا کر مر گئے تھے إِنِّى مُتَوَفِّيكَ، فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى ۱۰:۴٦ نَتَوَفَّيَنَّكَ ۳:۵۵، ۵:۱۱۷، ۳:۱۴۴ اور مردے اس زمین پر واپس نہیں اتے۔ قران-الحکیم ایک بڑی کتاب ہے مفصل ٦:۱۱۴ اور مکمل ۱٦:۸۹ کتاب ہے مگر قران میں کسی شیعہ کے مامے مہدی کا یا کسی سنیوں کے چاچے دجال کا ذکر نہیں ہے۔ رہی احادیث کی بات تو مسٹر ملاں: مجھے یہ بتاؤ کہ کیا رسول نے کوئی تحریری نسخہ حدیث کا پیچھے چھوڑا تھا؟ نہیں۔ بلکہ رسول نے تو صرف قران لکھنے کی اجازت دی تھی۔ مجھے یہ بتاؤ کہ کیا چار خلفاء نے کوئی تحریری نسخہ حدیث کا پیچھے چھوڑا تھا؟ نہیں۔ اب مجھے یہ بتاؤ کہ کیا کسی بھی صحابی نے کوئی تحریری نسخہ حدیث کا پیچھے چھوڑا تھا؟ نہیں۔ تو اب یہ بتاؤ کہ تم شیعہ اور سنی مشرکین یہ احادیث اور سنت اور تفاسیر اور اسباب نزول اور سیرت اور فقہ کی کتب کہاں سے لے ائے ہو۔ میں اس حدیث کو ماننے کو تیار ہوں جس حدیث کے صحیح ہونے کی کم از کم چار خلفاء نے تو ذاتی طور پر تصدیق کی ہو۔ مگر ایسی ایک بھی حدیث موجود نہیں ہے۔ بلکہ نبی اور چار خلفاء کے دور میں تو احادیث پر پابندی تھی۔

جیسا کہ ہم نے لکھا ہے کہ عیسائی اور یہودی مذاہب کے متعلق غامدی ایک جاہل مطلق ہے۔ یہ ادمی بارناباس کی جعلی گاسپل کے حوالے تو دیتا ہے مگراس نے تمام گاسپلز کے پرانے نسخے نہیں پڑھے جن میں لکھا ہے کہ صلیب سے اتارنے کے بعد جب ایک خالی ٹومب میں ایسین یعنی حواری، نبی عیسی کے زخموں کا علاج کر رہے تھے وہ ان کے سر اور پاؤں کی طرف بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ عورتوں نے انہیں دیکھا۔ سب حواری سفید لباس پہنتے تھے۔ مگر بعد میں پادریوں نے ان سفید کپڑوں میں ملبوث حواریوں کو فرشتے بنا ڈالا۔ اسی جعلی کہانی کو غامدی اپنے ویڈیو میں سنا کر کہہ رہا ہے کہ مرے ہوئے عیسی کو فرشتے اٹھا کر لے گئے- اس جاہل کو اس قسم کی مزاحیہ بچگانہ کہانیاں سناتے ہوے شرم بھی نہیں اتی۔

ھائی صاحب: اپ نے جو رٹی-رٹائی بات کی ہے اس کا نہ سر ہے نہ پاؤں۔ قران کی ایت ٦:۱۹ اور کئی اور ایات یہ بتاتی ہیں کہ صرف قران ہی وحی کے ذریعے رسول پر نازل کیا گیا۔ جب اپ قران کو صرف قران کی اپنی تصریف سے سمجھیں گے تو اپ کو پتہ چلے گا کہ ایات ۵۳:۳، ۵۳:۴ بھی صرف قران کی وحی کی بات کر رہی ہیں۔ بطور ایک فانی غیر-معصوم انسان ہوتے ہوئے نبی جو گپ-شپ لوگوں سے لگاتے تھے وہ وحی نہیں تھی۔

یہ دو قسم کی وحی کی خرافات سنی ملاؤں کی ایجاد ہے۔ ایسے ہی انہوں نے ایک اور خرافات ایجاد کر رکھی ہے جسے وہ ناسخ-منسوخ کہتے ہیں۔ اج کل کے اسلامی قانون کے بڑے پروفیسرز یہ کہتے ہیں قران اپنی ایات کو منسوخ نہیں کرتا بلکہ پرانی کتابوں کی ایکسپائر-شدہ شریعت کو منسوخ کرتا ہے۔ ابھی ایت ٦٦:۱ میں نبی نے ایک کام کیا جو اللہ تعالی کو پسند نہ ایا۔ تو وہ جو کام نبی نے اللہ تعالی کی مرضی کے خلاف کیا، کیا ایسا کام وحی کے ذریعے کیا گیا تھا؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر سنی فرقہ کی اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ نبی نے کہا کہ میں تمہاری طرح کا انسان ہوں اس لیے میری حدیث یعنی ذاتی باتیں نہ لکھو۔

دوسرا نقطہ یہ ہے کہ اگر اپ کی دوسری قسم کی وحی جسے اپ نے سنت اور حدیث کا نام دے رکھا ہے اسلام کا حصہ ہوتی تو پھر چار خلفاء کو کتب سنت و احادیث ضرور لکھوانی چاہیے تھی۔ مگر نہ نبی نے کوئی تحریر سنت اور حدیث کی پیچھے چھوڑی، نہ ہی ایسی کوئی تحریر چار خلفاء نے پیچھے چھوڑی اور نہ ہی ایسی تحریر کسی صحابی نے پیچھے چھوڑی۔ تو اب سوال یہ ہے کہ اپ کے پارسی بخاری کو کس نے اجازت دی کہ نبی کی وفات کے ۲۵۰ سال بعد وہ اپنی من-گھڑت خرافات کی کتاب لکھے، وہ کتاب جو توہین رسالت کرتی ہے اور توہین قران کرتی ہے۔

چونکہ نبی اور تمام صحابہ نے پیچھے صرف لکھا ہوا قران ہی چھوڑا لہذہ اللہ اور رسول کی اطاعت کا معنی صرف قران کو فالو کرنا ہے۔ سب سنت اور احادیث کی کتب من-گھڑت کتب ہیں جو اس وقت لکھی گيئں جب ایک صحابی بھی زندہ نہ تھا جو ان احادیث اور سنت کی سٹوریوں کے صحیح ہونے کی تصدیق کر سکتا۔ اور ایسی من-گھڑت کتب پر ایمان قائم نہیں کیا جاسکتا

قران ایک بڑی کتاب ہے اور مفصل اور مکمل کتاب ہے ۱٦:۸۹، ٦:۱۱۴۔ تو پھر یہ درود، قران میں کیوں موجود نہیں ہے؟ یہ درود ابراہیمی، ایرانی-نژاد، بغداد کے شیعہ حاکم معزدولہ کی ایجاد ہے۔ اس کا تعلق بنی-بویہ کے خاندان سے تھا ان کو دہلمی مچھیرے بھی کہتے تھے۔ بحیرہ کیسپین کے ساتھ اباد تھے۔ اسی نے یہ درود فورج کروا کر زبردستی پانچ ایرانی پارسی نمازوں کی تشاھہد میں ڈلوایا تھا۔ اپ ان الفاظ “اٰل محمد” سے اسانی سے جج کر سکتے ہیں کہ یہ درود صرف شیعہ کی ہی کارستانی ہے۔ جو ادمی یہ درود پڑھتا ہے وہ خدا کو کہہ رہا ہوتا ہے کہ اے خدا تم اس نبی پر نماز پڑھو جو ۱۴۰۰ سال پہلے فوت ہو چکا ہے۔ یہ کھلا شرک ہے۔ صلوۃ، نماز نہیں ہے۔ اگر ہوتی تو مفصل اور مکمل قران ہم کو ان نمازوں کی رکعات کی تعداد تو ضرور بتاتا۔ قران ۲۴:۴۱ میں بتاتا ہے کہ پرندے بھی صلاۃ کو فالو کرتے ہيں۔ آگر صلاۃ کے معنی نماز کیۓ جائیں تو پرندے کیا، شیعہ کی طرح نماز پڑھتے ہیں یا سنی فرقہ کی طرح؟ کیا وہ معزدولہ کا فورج کیا ہوا درود بھی تشاھہد میں پڑھتے ہیں اور کیا وہ فاتحہ پڑھنے کے بعد خاموشی سے آمین کہتے ہیں یا وھابیوں کی طرح چیخ کر ایک کلومیٹر لمبی آآآآآآآآآآآمین کہتے ہیں؟ ۔ ان فرقہ پرستوں نے یہ آمین کا لفظ چرچ سے کاپی کیا ہے یہ معزدولہ وہی جعل ساز تھا جس نے نجف میں خلیفہ علی کا فرضی مقبرہ بنایا تھا۔ وہ وہی جعل ساز تھا جس نے پہلی بار دس محرم کا دن منانا شروع کیا۔ یہ وہی فراڈیا تھا جس نے خطیبوں کو ہر جمعہ کے خطبہ میں ابوبکر اور عمر کو گالی دینے یعنی تبرا کا حکم دیا تھا۔
درحقیقت پرانے عربی کیلنڈر میں محرم کا کوئی مہینہ موجود ہی نہیں تھا۔ سال، صفر اول، صفر دوم سے شروع ہوتا تھا۔
 
اڑنے والے کھوتے “براق” کی پوری کی پوری کہانی من گھڑت ہے۔ اس کہانی کی نہ کوئی تاریخی بنیاد ہے اور نہ ہی کوئی مابعدالطبیعاتی بنیاد۔ کئی اعلیٰ درجے کے مسلم علماء نے اس افسانے کو رد کیا ہے۔ جناب شفیع اللہ صاحب: برائے مہربانی: جاگ جائیں اب

جناب اپ کی بات میں کوئی منطق نہیں ہے۔ وہی پرانی رٹی-رٹائی بات اپ نے لکھ دی ہے۔ کیونکہ رسول، خلفاء اور تمام صحابہ نے پیچھے صرف لکھا ہوا قران ہی چھوڑا۔ اس لیے، راہنمائی صرف قران سے لو صاحب۔ سنت احادیث اور تفسیر کی سب کتب شیعہ اور سنی فرقوں کی من-گھڑت خرافات ہیں۔ سنی فرقہ کی چھ اور شیعہ کی چار کتب نبی کی وفات کے ۳۰۰ سال بعد ایرانی پارسی اماموں نے فورج کیں۔ ان کتب کے مصنف باطنی تحریک کے منافق تھے اسی لیے یہ کتب خاتم الأنبياء اور قران کی بار بار توہین کرتی ہیں۔ بخاری لکھتا ہے نبی نے کئی دفعہ خود کشی کی کوشش کی۔ ابن ماجہ لکھتا ہے قران کی ایات کو کوئی سنی-بکری کھا گئی۔ تو یہ ہیں وہ خرافات جن کو تم حدیث کہتے ہو۔

نبی عیسی کے بارے میں جب قران صاف بات کرتا ہے تو پھر اپ کو ان من-گھڑت احادیث کی ضرورت کیوں پڑ گئی؟ مکمل وضو ایت ۵:٦ میں ہے۔ تو پھر اپ کو ان من-گھڑت احادیث کی ضرورت کیوں پڑ گئی؟ حج کے وہی مناسک اسلامی حج کا حصہ ہیں جو قران میں ہیں۔ پتھروں کے بنے ہوئے کعبہ کو سجدے کرنا، حجر اسود کو چومنا اور پتھروں کے بنے ہوئے کعبہ کے گرد سات چکر لگانا مشرکین کے حج کا حصہ تھے۔ مفصل اور مکمل قران ٦:۱۱۴، ۱٦:۸۹ میں پانچ نمازوں کی تفصیل اور رکعات کی تعداد اس لیے موجود نہیں کیونکہ صلاۃ، نماز نہیں ہے۔ یہ پانچ نمازیں ایرانی پارسیوں سے امپورٹ کی گئی تھی اور پھر ان نمازوں کی پوجا-پاٹ کو اسلام کا حصہ بنانے کے لیے اڑنے والے ٹٹو براق کی حدیث فورج کی گئی، براق کی کہانی کو پارسیوں کی کتاب آرڈا-ویراف سے کاپی کیا گیا۔ قران ایت ۲۴:۴۱ میں بتاتا ہے کہ پرندے بھی صلاۃ فالو کرتے ہیں۔ اگر صلاۃ کے معنی نماز ہے تو بتاؤ کہ پرندے شیعہ کی طرح نماز پڑھتے ہیں یا سنی فرقہ کی طرح ؟

1
 
Reply

Debunking Countless Fables of South Asian Mullahs, Imams, and Muftis – Comments   

Gallery

Leave a Reply but Be ethical please & be specific & logical